-Advertisement-

تابش گوہر پاکستان میں ساڑھے نو ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے

تازہ ترین

اسلامک مائیکروفنانس سروسز کو فروغ دینے کیلئے میزان بینک اور پاکستان مائیکروفنانس نیٹ ورک کے درمیان معاہدہ

 پاکستان کے نامور اسلامی بینک میزان بینک نے پاکستان مائیکرو فنانس نیٹ ورک (PMN)کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط...
-Advertisement-

پاکستان کے معاشی حب کراچی جہاں سے محصولات کا 65 فیصد حصہ ملک کے خزانے میں شامل ہوتا ہے بدقسمتی سے اس شہر کی ترجیحی ضروریات کئی دہائیوں سے فقط خوش کن سیاسی نعروں سے پوری کی جارہی ہیں۔ کراچی شہر کے کئی گھمبیر مسائل میں بے لگام آبادی، صفائی کا فقدان، بے ہنگم ٹریفک اور خصوصا’ توانائی بحران جن پر وسائل ہوتے ہوئے بھی سیاستدان اور افسر شاہی مسائل میں اضافے کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ماضی میں پاکستان اسٹیل ملز، سوئی سدرن گیس اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن بہترین ادارے تصور کئے جاتے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ انہیں مالی مفادات اور اقرباء پروری کی نظر کردیا گیا۔

پاکستان اسٹیل ملز، سوئی سدرن گیس میں مالی بے قاعدگیوں اور بے ضابطہ بھرتیوں نے ایک جانب اور اداروں کو تباہ کردیا تو دوسری جانب باصلاحیت نوجوانوں کے مستقبل پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں ملازمتوں پر پرچی فروشی کی گئی۔ کچھ ایسا ہی حال ماضی کی کے ای ایس سی کا کیا گیا۔ 2005 میں جب کی ای ایس سی کو نجکاری کے ذریعے سعودی گروپ کو سونپا گیا تو اس وقت یہ ادارہ کنگال ہوچکا تھا اور اس کے انفرا اسٹرکچر کو ایندھن (رقوم ) فراہم کرنے کیلئے حکومتی خزانے میں کچھ نہ تھا۔ اس بیمار صنعت کو پھر سے زندہ کرنے کیلے سعودی گروپ کو راضی کیا گیا جس نے خطیررقوم سے ادارے کی آبیاری کی۔ ابراج گروپ کے مینجمنٹ نے ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن کے نقصانات کوگزرتے وقت کے ساتھ بتدریج کم کرنا شروع کیا لیکن سیاسی مصلحتیں بدستور حائل ہوتی رہیں۔

معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق مختلف حکومتوں کی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کے نتیجے میں بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں بڑے منصوبوں پر سرمایہ کاری کے دوران بے انتہا مسائل کا سامنا تھا اب جبکہ عمران خان نے بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے لئے راغب کیا تو کمیشن مافیا متحرک ہوگیئ۔ گزشتہ چار سال سے شنگھائی الیکٹرک پاور کی جانب سے 9 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کی بڑی سرمایہ کاری جس کے ذریعے کراچی کے توانائی بحران پر مکمل طور پر قابو پایا جاسکتا ہے اس عمل میں نادیدہ قوتوں نے رخنہ ڈالنا شروع کردیا۔ ان نادیدہ قوتوں کے الہ کارمسئلے کے حل کی بجائے کے الیکٹرک کو بحران کی دلدل میں دھکیلنے کے سازشوں میں مصروف ہیں اور اس عمل میں کے الیکٹرک سے نکالے گئے بعض افسران بھی شامل ہیں۔

” کے الیکٹرک سے فارغ کئے جانے کے زخم کھرید کر ذاتی عناد کی بنا پرتابش گوہر پاکستان میں آنے والی 9 اعشاریہ 5 بلیئن ڈالر کی سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں: مقتدر حلقے”

مقتدر حلقوں کی بازگشت ہے کہ کے الیکٹرک کے سابق چیرمین تابش گوہرجوخیر سے اب وزیر اعظم عمران خان کے توانائی اور پیٹرولیم کے مشیربن کر بلا شرکت غیرے اپنے لامحدود اختیارات کے ذریعے کے الیکٹرک سے فارغ کئے جانے کے زخم کھرید کر ذاتی عناد کی بنا پر پاکستان میں آنے والی 9 اعشاریہ 5 بلیئن ڈالر کی سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں کہ ایک جانب کورونا کی وباء سے دنیا کے ترقیافتہ ممالک کی معیشتیں لرزچکی ہیں مہنگائی کا تلاطم امڈ رہا ہے بلوخصوص پاکستان اپنی معاشی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے ایسے حالات میں تابش گوہر کا خط منظر پر آنے سے نا صرف سعودی سرمایہ کار مضطرب دھائی دیتے ہیں ساتھ ہی ہمارا برادر ملک چین بھی کچھ ناراضگی کا اظہار کررہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے قیام سے لیکر اب تک وزراء اور مشیروں کے کئی مبینہ اسکینڈلزمنظر عام ہوئے جن میں تانیہ ادروس، ظفر مرزا اور ندیم بابر شامل ہیں جس کے نتیجے میں وزیر اعظم کو مشکل فیصلے لینے پڑے لیکن کے الیکٹرک اور دیگر اداروں کے بقایاجات کے تنازعے کا حل جو کہ چند روز میں با آسانی حل تلاش کیا جاسکتا ہے اس مسئلے کو پیچیدہ بنانے میں مشیر موصوف تابش گوہر نے اہم فریضہ ادا کیا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے تین سالہ کٹھن دور میں جہاں بڑے فیصلے کئے وہاں کے الیکٹرک اور دیگر اداروں کے بقایاجات کی ادائیگیوں اور وصولی پر ایک ہی نشست میں اپنے واضع احکامات کی مہر ثبت کریں تاکہ شنگھائی الیکٹرک کی بڑی سرمایہ کاری سے دنیا کی توجہ مبزول کرائی جاسکے۔

” شنگھائی الیکٹرک کی بڑی سرمایہ کاری سے دنیا کی توجہ مبزول کرائی جاسکتی ہے۔ معاشی ماہرین “

رہا سوال مشیر توانائی اور پیٹرولیم کی ماضی کی کارکردگی کا تو یہ وہی شخصیت ہیں جو بائیکوپیٹرولیم کمپنی کے بیک وقت چار اہم عہدوں پر براجمان رہے اور انہی کے دور میں یعنی جولائی 2015 میں ہائی اسپیڈ ڈیزل اسمگلنگ کا واقع رپورٹ ہوا۔ اسواقعے میں ایڈیشنل کلکٹر کسٹمز امجد الرحمان نے چھاپہ مار کاروائی کے دوران 3 لاکھ 92 ہزار ہائی اسپیڈ ڈیزل برآمد کیا جو مبنہ طور پر بائیکو پیٹرولیم کمپنی کی ملکیت تھا۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی اس کمپنی پر ماضی میں مبینہ کرپشن اور اسمگلنگ کے الزامات ثابت ہوتے رہے ہیں جو ذرائع کے مطابق بائیکو پیٹرولیم کے چار اہم مناصب پر براجمان تابش گوہر کے وزارتوں میں تعلقات کی بناء پر فائلوں کی نظر ہوتے رہے ہیں۔

“تابش گوہر ذیلی کمپنی اویسسز پاور کمپنی کا پیلٹ فارم استعمال کرکے شنگھائی الیکٹرک کے مقابلے میں نئے سرمایہ کار کو متعارف کرانا چاہتے تھے”

معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اویسسز انرجی کے بانی تابش گوہر ذیلی کمپنی اویسسز پاور کمپنی کا پیلٹ فارم استعمال کرکے شنگھائی الیکٹرک کے مقابلے میں نئے سرمایہ کار کو متعارف کرانا چاہتے تھے لیکن بعض حلقوں کی مداخلت کے باعث منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا جس کے ردعمل میں موصوف نے خط لکھ کر ذرائع ابلاغ کونیا چٹکلا دے دیا۔ واضع رہے کہ معاشی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پالیسیوں کا تسلسل نہ ہونے کی بناء پر بیرونی سرمایہ کاری میں 14 فیصد کمی ہوئی ہے۔

“حکومت کی جانب سے ترجیحی بنیادوں پر کے الیکٹرک اور دیگر اداروں کے درمیان واجبات اور ادائیگیوں (کلابیکس) کو نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے”

دارالحکومت سے آمدہ اطلاعات کے مطابق اور الجومیہ گروپ کے خط میں تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے ترجیحی بنیادوں پر کے الیکٹرک اور دیگر اداروں کے درمیان واجبات اور ادائیگیوں (کلابیکس) کو نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے الجومایہ کے سربراہ سے ملاقات اور ان کے مسئلے کے حل کی یقین دہانی کے بعد تابش گوہر کا خط منظرپر آنے کے حوالے سے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانے کابینہ میں شامل چند وززاء نے غیر منتخب مشیر کے اس عمل کو پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری میں رکاوٹ سے تشبیہ دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے فوری نوٹس لینے کی درخواست کی ہے۔

ادھر کے الیکٹرک انتظامیہ نے توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی کے حوالے سے پریس بریفنگ کا انعقاد کیا جس میں بی قاسم پاور اسٹیشن تھری کے پہلے یونٹ کی تفصیلات کے علاوہ ہائی لائن لاس پول ماؤنٹڈ ٹرانسفارمرز (پی ایم ٹیز) کے متبادل ایریل بنڈل کیبلز (اے بی سی) کی تنصیب کے رفتاراور اگلے تین سالہ منصوبے پر ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی مزید سرمایہ کاری تفصیلات بتائی گئیں۔ صحافیوں کو بریفنگ کے دوران ماہ رمضان میں کراچی کے شہریوں کو لوڈشیڈنگ نا ہونے کی نوید بھی سنائی گئی۔

اہم خبریں

-Advertisement-

جواب تحریر کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مزید خبریں

- Advertisement -