طارق روڈ پر واقع انٹرنیشنل موٹر ورلڈ نام سے قائم شوروم مالکان انوسٹمنٹ کی مد میں مبینہ طور پر کروڑوں روپے کا غبن کرکے فرار ہوگئے۔اطلاعات کے مطابق 35/70سے کروڑ روپے کا فراڈ کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل موٹر ورلڈ مالکان میں دو بھائی فہد سہیل اور حماد سہیل شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق بروز پیر 12 اپریل کو آخری بار سات بجے صبح شوروم کھولا گیا اس دوران مبینہ طور پے کیمروں کی تاریں کاٹ کر کیمرہ ریکاڈنگ ڈیوائس نکال لی گئی گئیں۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ مزکورہ کار شوروم مالکان بلمقابل واقع عمارت سے اپنے اہل خانہ سمیت روپوش ھو گئے ہیں مزید یہ کہ ان کے موبائل فونز بھی استعمال میں نہیں ہیں۔ ذرائع نے
تصدیق کی ہے کہ خالد بن ولید پر واقع گاڑیوں کے مزکورہ شوروم کے مبینہ فراڈ کی لپیٹ میں ایک مشہور ریسٹورنٹ کے مالکان بھی آگئے ہیں جنکی سرمایہ کاری کروڑوں میں تھی۔ ادھر خالد بن ولید کی کار ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رکن اورنگزیب آفریدی کا واٹس اپ میسج بھی وائرل ھوا ھے جس میں ان بھائیوں کہ متعلق بتایا گیا ھے جس میں عہدیداروں سے گزارش کی ہے کہ مارکیٹ میں ایک لاحہ عمل طے کیا جائے کہ تاکہ اس قسم کے مبینہ فراڈ سے مارکیٹ کی بدنامی نہ ہو۔
واضع رہے کہ انوسٹرز کے رقوم سے ہی شورم کا ماہانہ پانچ لاکھ کرایہ ادا کیا جاتا تھا۔ سرمایہ کاروں کو سبز باغ دکھانے کیلئے چھے ماہ قبل شورم کے افتتاح پر پر تکلف اعشائیہ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
معلوم ہوا ہے کہ غیر ظاہر کردہ رقوم کے بارے میں محصولات کے اداروں کی پوچھ گچھ کے خوف سے سرمایہ کاروں نے تاحال نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں سے رجوع نہیں کیا۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران لگژری گاڑیوں کی قیمتیں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ شوروم مالکان کا طریقہ واردات کچھ اس انداز میں ہے کہ انوسٹر سے کہا جاتا ہے کہ گاڑی کی خریداری اور جاپان یا دیگر ممالک سے درآمد میں دو ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے اس دوران انویسٹر سے مزید رقم وصول کی جاتی ہے ساتھ ہی اسی فائل پر دوسرے انویسٹر کو گھیرا جاتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک وقت ایک لگژری کار پر تین سرمایہ کاروں کو ہنرمندی کے ساتھ کئی گنا منافعے کا لالچ دیا جاتا ہے۔ عروس البلاد شہر میں پراپرٹی پر ایک سے زائر دعویداروں کے واقعات کی طرح اب لگژری گاڑیوں کے کاروبار میں بھی مبینہ فراڈ کے واقعات کا گراف بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
سرمایہ کار اپنے کالے دھن کو ایف بی آر اور دیگر محصولاتی اداروں کی نظروں سے بچا کر بڑے منافع کے لالچ میں غیر محفوظ سرمایہ کاری کی ترجیح دے رہے ہیں اور اس عمل میں ہزاروں افراد حلال طریقے سے کمائی زندگی بھر کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
سرمایہ کاروں کو چند ماہ بعد شورم مالکان کے مبینہ فراڈ کا علم ہوتا ہے کہ لگژری گاڑی کی فائل ایک انویسٹر کے پاس جبکہ استعمال دوسرا انویسٹر اور اسی گاڑی کے بل اف انٹری پر ایک اور انویسٹر کا نام درج ہوتا ہے۔ خالد بن ولید کار شورم ایسوسی سیشن سے رابطے کرنے والے متاثرین کے پاس کوئ دستایزی ثبوت موجود نہیں اور حیران کن امر ہے کہ بڑی رقوم کی لین دین فقط (زبانی جمع خرچ) گڈ ول پر کی جاتی ہے۔ “جب تک بے وقوف زندہ ہے، عقلمند بھوکا نہیں مر سکتا” کی مثال کا اندازہ اس شعبے میں پیش آنے والے واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔