پاکستان کی معاشی شہہ رگ کراچی پرایک بار بھر سیاسی جگت بازوں کی حشر سامانیوں کے باعث شدید خطرات مندلارہے ہیں۔ سمندری طوفان “تاؤکتے” کے رخ تبدیل ہونے سے کراچی پربارشوں کی تباہ کاری کے خطرات ٹل گئے ہیں لیکن وفاق اور سندھ کے حکمراں جنگی بنیادوں پر اقدامات کی بجائے اپنے درباریوں کے ذریعے شاہی فرمان جاری کرتے نظر آرہے ہیں۔
عید الفطر کی طویل تعطیلات کے دوران وزیر اعلٰی سندھ نے مخصوص اجلاس میں سمندری طوفان کے حوالے سے چند فیصلے کئے جن میں تاؤکتے سیل کے قیام کی منظوری دی گئی جس کے بعد وزیر بلدیات نے نالوں کی صفائی کے احکامات بھی جاری کئے۔ سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے واضع احکامات کے باوجود تاحال کی کراچی شہر میں نالوں پر قائم تجاوزات کے مکمل خاتمے کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گیئں اور خدشہ طاہر کیا جارہا ہے کہ آئیندہ دو ماہ میں ہونے والی متوقع بارشوں کے نتیجے میں شہرکے تباہ حال انفرا اسٹرکچرکو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
“شہر میں آویزاں بھاری بھرکم بل بورڈ کو ہٹانے کے احکامات جاری کئے گئے لیکن ان پر بلدیاتی افسران کو مبینہ طور پر عیدکے بھاری نزرانوں کے نتیجے میں عملدرآمد نہیں کیا گیا”
بارشوں سے شہر کے زیادہ متاثرہ علاقوں میں گلشنِ حدید، سرجانی ٹاؤن، ملیر ندی سے ملحقہ علاقے، کورنگی، لانڈھی، ڈیفنس، منظور کالونی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، اورنگی ٹاوَن، آئی آئی چندریگر روڈ، صدر، کھارادر، نارتھ کراچی، ناگن چورنگی، گلبرگ، بفرزون ،عزیز آباد اور لیاقت آباد شامل ہیں۔ دوسری جانب شہر میں آویزاں بھاری بھرکم بل بورڈ کو ہٹانے کے احکامات جاری کئے گئے لیکن ان پر بلدیاتی افسران کو مبینہ طور پر عیدکے بھاری نزرانوں کے نتیجے میں عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ ادھر ایک اہم ادارے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ جو کہ طویل عرصہ سے سیاست کا اکھاڑا بن چکا ہے بارشوں سے قبل فعال نظر نہیں آرہا۔
“گزشتہ سال کراچی میں بارشوں کی اوسط 160 ملی میٹر سے زائد ریکارڈ کی گئی اور شہر کے تباہ حال ڈانچے نے 4 درجن سے زائد افراد کی زندگیوں کے چراغ بجھادیئے”
ہر سال کراچی میں بارش کی تباہ کاریوں سے درجنوں افراد لقمئہ اجل بنتے ہیں لیکن بے حس سیاستداں اور افسر شاہی فقط اپنے عہدوں اور امارت کی پرورش میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔ گزشتہ سال کراچی میں بارشوں کی اوسط 160 ملی میٹر سے زائد ریکارڈ کی گئی اور شہر کے تباہ حال ڈانچے نے 4 درجن سے زائد افراد کی زندگیوں کے چراغ بجھادیئے اور حکمرانوں نے خود بری اذمہ ہوتے ہوئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ تمام ملبہ اداروں پر ڈال دیا۔
شہر کے ڈانچے، بنیادی سہولتوں اور بلدیات پر اتھارٹی رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ بارشوں کے پانی کے اخراج میں رکاوٹ ہی مرکزی خرابی ہے اسے نظر انداز کرنے سے نا تھمنے والے مسائل پیدا ہوتے ہیں جن میں گٹروں سے ابلنے والے پانی، جان لیوا بیماریاں، زیر زمین بجلی کے کیبلز میں خرابیاں اور اس کے نتیجے میں کرنٹ لگنے کے واقعات، زیر زمین گیس پائپ لائنوں کی لیکیج اور پینے کے پانی کی لائنوں میں گندے پانی کی شمولیت جیسے لامتناعی مسائل شامل ہیں۔
” چار سو بارہ نالوں کی صفائی کا کام تاحال کاغزات کی حد تک محدود ہے”
کراچی میں نکاسی آب کیلئے بیالیس بڑے نالوں سمیت مجموعی طور پر 412 نالوں کا پانی ملیر اور لیاری ندی کے ذریعے سمندر میں اترتا ہے ان نالوں کی صفائی کا کام تاحال کاغزات کی حد تک ہے۔ تین بڑے نالوں جن میں گجر نالہ، منظر کالونی نالہ اور اورنگی نالے پر انکروچمنٹ ہورہی ہے لیکن سیاسی مداخلت خصوصا” ان علاقوں میں من پسند ووٹرز کی مخالفت کے نتیجے میں غیر قانونی تجاوزات کی صفائی کا کام سست روی کا شکار ہے اور بارشوں کے نتیجے میں شہر گزشتہ سال ہونے والی بارشوں اور سیلابی صورتحال کی تخیل میں منظر کشی کی جاسکتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہمارے موسموں میں شدت آ رہی ہے۔ اس کے باعث سیلاب، ہیٹ ویو، مختلف علاقوں میں قحط سالی اور اب شہری سیلاب تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔ بارشوں کے دوران شہری سیلاب کا ایک اور سبب گیس اور پانی کی لائنوں کا نالوں میں سے گزارنا اور نالوں میں کچرا پھینکنا بھی ہے اس کے علاوہ گشتہ چند برسوں کے دوران شہر میں قائم کی گئی کچی آبادیاں بھی نکاسی آب کے لئے قائم نالوں کو سکیڑنے کا بنیادی سبب بن رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بنیادی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس نے اپنے تئیں حفاظتی انتظامات مکمل کرلئے ہیں لیکن ان اداروں کے اعلی حکام نے وفاق اور صبائی حکومتوں کو بارشوں کے نتیجے میں مزکوہ علاقوں میں نکاسی آب کے “چوکنگ پوائنٹس” کی جانب توجہ مبزول کروائی ہے تاکہ نکاسی آب کی روانی کو یقینی بنایا جاسکے۔
“سال ہیٹ ویو کے دوران مقامی فالٹس کے علاوہ شہریوں کی جانب سے بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی شکایات موصول نہیں ہوئیں جوکہ اس ادارے کا احسن اقدام ہے”
خوش کن امر یہ ہے کہ اس سال ہیٹ ویو کے دوران مقامی فالٹس کے علاوہ شہریوں کی جانب سے بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی شکایات موصول نہیں ہوئیں جوکہ اس ادارے کا احسن اقدام ہے۔
“کے ایم سی اور واٹر بورڈ کے پمپس شہر کی سیلابی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ناکافی ہیں”
واضع رہے کہ بارشوں میں ہنگامی صورتحال کیلئے کے ایم سی کے پاس سترہ ہیوی پمپس ہیں جبکہ واٹر بورڈ کے اسٹور میں صرف دو درجن پمپ موجود ہیں جو شہر کی سیلابی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ناکافی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اردو بازار، سندھ سیکریٹیریٹ، سپریم کورٹ پارکنگ ایریا، شاہین کمپلیکس اور ڈان اخبار کا مارکیٹنگ آفس نالوں پر قائم ہے جن کی صفائی شہر کی سیلابی صورتحال سے نمٹنے میں مدد دے گی۔
“حسب روایت قدرتی آفت کے نتیجے میں کروڑوں روپے کے فنڈز ذاتی مفاد کی نظرہونگے لیکن انسانی جانوں کا مداوا سیاسی حریفوں پر تندوتیز جملوں سے کیا جائے گا نتیجتا” بنیادی سہولت فراہم کرنے والے داروں کے الیکٹرک، سوئی گیس اور دیگر کو انسانی جانوں اور تباہی کا ذمہ دار گردانا جائے گا، بعض سیاسی کھلاڑی اپنے دربانوں سمیت عوام کی داد رسی کیلئے سڑکوں پرآئیں گے، دھرنے دیکر مفادات سے لب ریز بھی ہونگے”
لیکن عملی طور پر پاکستان کی بیرونی اندرونی سرحدوں کے نگہباں ہی آفت زدہ معصوم عوام کی مدد کو پہنچیں گے اور پھر کام مکمل ہونے پرسرخرو ہوکر اپنی بیرکوں واپس ہولیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاستداں اوران کے ماتحت سول ادارے اہل نہیں کہ قبل ازوقت طوفان کے آگے بند باندھ لیں؟؟؟
کیا دنیا ایک بار پھر کراچی کی سیلابی صورتحال کا تماشہ دیکھے گی یا ادارے قبل ازوقت نالوں پر قائم تجاوزات کے خاتمے اور نالوں کی صفائی کرکے عوام کی جان و مال کو ممکنہ حد تک بچایا جاسکے؟