موجودہ حکومت کو مہنگائی، بے روزگاری، ذخیرہ اندوزی، گردشی قرضوں میں خطرناک اضافے کے ساتھ اب فرنس آئل کے سنگین بحران کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین کے بیان جس میں فوڈ آئٹمز اور فرنس آئل کی درآمد میں کٹوتی کے فیصلے کے فوری بعد اٹک ریفائنری کی جانب سے پیٹرولیم ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل عمران احمد کو لکھے گئے خط جس میں فرنس آئل کی کمی کے سبب پیداوار بند کرنے کی دھمکی دی گئی تھی منظر عام ہوا ہے۔ اس خط کے متن کے بارے میں اسلام آباد ذرائع نے آئی پی پیز کو فرنس آئل کی بروقت فراہمی نہ ہونے سے نیشنل گرڈ کو توانائی شعبے میں سنگین مسائل کا سامنا ہوگا۔
معتبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ توانائی خدمات فراہم کرنے والی ایک نجی کمپنی اور بائیکو پیٹرولیئم جس کے روح رواں ماضی قریب میں وزیر اعظم کے مشیر توانائی رہ چکے ہیں اور انہیں مفادات کے ٹکراؤ، سرکاری معاملات میں بے جا مداخلت اور توانائی شعبے 42 کے قریب اہم عہدوں پر اپنے خاص مہرے تعینات کرنے کے سنگین الزامات پر مشاورت کے عہدے سے فارغ کیا گیا تھا سمیت پس پردہ مافیا ایک بار پھر متحرک ہوچکی ہے۔
ریفائنریز کی جانب سے پیٹرولیئم ڈویژن کے ڈی جی کو ارسال کئے گئے خط کے متن میں فرنس آئل کی خریداری نہ ہونے پر پیداوار بند کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ صرف اٹک ریفائنری ہی نہیں بلکہ پاکستان کی متعدد ریفائنریز نے وزارت توانائی کے ڈی جی آئل کو اسی انداز میں
خط ارسال کئے ہیں۔
ریفائنریز کی جانب سے لائٹ سلفر فرنس آئل کو اسٹور کرنے کی گنجائش ختم ہونے کا بھی اشارہ دیا گیا ہے۔ ادھر ریفائنریز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ لائٹ سلفر اٗئل کو استور کرنے کی گنجائش صرف سات روز کی ہے۔
ریفائنریز نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ چند روز تک حکومت نے کوئی فیصلہ نہ لیا تو ریفائرنریز کو مکمل طور پر بند کردیا جائے گا۔
ادھر حکومت نے ریفائنریز کو کیروسین آئل بنانے کی ہدایت کی ہے تو دوسری جانب ایک مخصوص ٹولہ سرگرم ہوکر فرنس ائل کے بحران کو سنگین کرنے کیلئے متحرک ہوچکا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فرنس آئل کے بحران سنگین مخصوص ٹولہ بائیکو پیٹرولئیم کی مبینہ کرپشن پر پردہ ڈالنے مزید فوائد کے حصول کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے حربے استعمال کررہا ہے۔
واضع رہے کہ حکومت درامدی بل میں واضع کمی کیلئے جنگی بنیادوں پر عملی اقدامات کا عندیہ دے چکی ہے تاکہ گردشی قرضوں کے بوجھ میں کمی لائی جاسکے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم کے سابق مشیر نے عہدہ سنبھالتے ہی مختلف سیپکوز میں 42 کے قریب معتمد افراد کو اعلی عہدوں پر تعینات کروایا تاکہ قومی توانائی خصوصا” ریفائنری پالیسی میں مبینہ طور پر بائیکو اور چند مخصوص توانائی کمپنیز کو فائدہ پہنچایا جاسکے۔
معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کی ترسیل کے حوالے سےوزیر اعظم عمران خان کی اعلان کردہ توانائی منصوبے میں ایک سو گیارہ ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ڈسٹری بیوشن کی ذمہ دارہ این ٹی ڈی سی بورڈ کو دی جائے گی یعنی دودھ کی رکھوالی پر بلی نہیں بلکہ بلوں کے حوالے کی جائے گی ( کہتے ہیں کہ اگر مرض لاعلاج ہوجائے تو پیشگی فاتحہ پڑھ لینی چاہئے)۔ اور ذرائع نے این ٹی ڈی سی کے نئے بورڈ خصوصا” چیرمین کے بارے میں بڑے انکشاف کئے ہیں۔
واضع رہے کہ این ٹی ڈی سی بورڈ کے موجودہ چیرمین نوید اسماعیل جو کہ 2013 میں جینکو ہولڈنگ کے سی ای او تھے اس کمپنی کو غیر معیاری کارکردگی کے نتیجے میں اس وقت کے واپڈا چیرمین راغب عباس شاہ نے کنٹریکٹ منسوخ کردیا تھا اور بڑی پرچیوں کے باوجود کنٹریکٹ بحال نا ہوا۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ وزیر اعظم کی عین ناک کے نیچے ایک ایسے شخص (نوید اسماعیل) کو قومی بجلی کے ترسیلی ادارے کا چیرمین مقرر کیا گیا ہے جو اس وقت “لیومین انرجیا” کے سی ای او بھی ہیں تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ لیومین انرجیا “آرسیلور متل اسٹیل مل کے 135 میگا واٹ توانائی منصوبے کا نظم و نسق سنھال رہی ہے۔ مذید گہرائی میں تحقیق کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ “آرسیلور متل اسٹیل” جس کا بظاہر ہیڈ آفس لیگزمبرگ میں ہے لیکن دنیا کی دوسری بڑی کپنی کے سی ای او آدیتیہ متل جبکہ ایگزیکٹیو چیرمین لکشمی متل ہیں۔ اس انکشاف سے محب وطن پاکستانیوں کا سوال کرنا حق بجانب ہوگا کہ حساس اور اہم قومی نوعیت کے بڑے ادارے این ٹی ڈی سی کی بڑی کرسی پر ایسے شخص کی تعیناتی کارپوریٹ گورننس کے قوانین کو بالائے طاق رکھ کر کی گئی ہے جس کی نجی کمپنی بھارتی سرمایہ کاروں اور بھارتی سیاست (جس کا محور پاکستان مخالف پروپیگینڈے) میں اہم کردار ادا کرنے والوں سے جڑے ہوں۔
بات یہاں تک محدود نہیں بلکہ 22 اکتوبر 2021 کو چیرمین نیب اور ڈائریکٹر جنرل نیب کو این ٹی ڈی سی کے اعلی عہدیداروں بشمول چیرمین کے خلاف نیب کے قانون مجریہ 1999 کی سیکشن 9 کے تحت کرپشن اور قومی ادارے کو نقصان پہنچانے پر تحقیقات و کاروائی کی استدعا کی گئی ہے۔
واضع رہے کہ این ٹی ڈی سی کی مانیٹرنگ وزیر اعظم کے علاوہ کم و بیش دس شخصیات کے ذمے ہیں جن میں وزیر توانائی بھی شامل ہیں۔ چیرمین این ٹی ڈی سی کی خلاف ضابطہ اور خفیہ سرپرستوں کی آشیرباد سے تعیناتی پر اٹھنے والے سوالات پر اس وقت کے وفاقی وزیر عمر ایوب نے بڑا بھونڈا سا جواب دیا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں۔
این ٹی ڈی سی کے موجودہ چیرمین کی ڈوریں وزیر اعظم کے سابق مشیر توانائی سے بھی ملتی ہیں۔ تابش گوہر کی بطور چیرمین کے الیکڑک ملازمت کے دوران نوید اسماعیل کے ای کے سی ای او رہے اور بعدازاں دونوں دوست مشہور زمانہ اویسس انرجی میں اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ چیرمین این ٹی ڈی سی نے اپنے اختیارات کااستعمال کرتے ہوئے اعزاز احمد کو بھاری ماہانہ محنتانے 15 ہزار ڈالر علاوہ تمام تر سہولیات مینجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جس میں مبینہ طور پر کارپوریٹ گورننس قوانین میں ردو بدل بھی کی گئی۔ذرائع کے مطابق بعدازاں الزامات پر انہیں سبکدوش ہونا پڑا۔
نوید اسماعیل کی تعیناتی کے پس پردہ عوامل ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں۔ درحقیقت بورڈ کے ان با اثر عہدیداروں کی نظریں وزیر اعظم عمران خان کے اعلان کردہ 111 ارب روپے کی سرمایہ کاری کے منصوبے پر لگی ہوئی ہیں جسے این ٹی ڈی سی سے منظور کئے جانے کے اطلاعات ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو موجودہ دور حکومت میں ایک اور میگا کرپشن سر ابھارے گا جس کا خمیازہ کوئی اور نہیں عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ریفائنریز کی جانب سے حکومت کو پیداوار کی بندش کی دھمکی کے اصل محرکات میں بائیکو کے حوالے سے تحقیقاتی اداروں پر دباؤ بڑھانے کی منظم انداز میں منصوبہ بندی کی گئی ہے۔