وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو باہر سے متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں، ہمارے ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمارے زیادہ تر لوگ انجانے میں استعمال ہو رہے ہیں، کچھ جان بوجھ کر ہمارے خلاف پیسہ استعمال کر رہے ہیں، قوم جاننا چاہتی ہے کہ لندن میں بیٹھا ہوا شخص کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے پر چل رہے ہیں، آج ذوالفقار علی بھٹو والا دور نہیں، قوم بیدار ہے، کسی کی غلامی قبول نہیں کریں گے، بیرونی سازش کی بہت سی باتیں مناسب وقت پر سامنے لائیں گے، حکومت اور جان جاتی ہے تو جائے، جو مرضی کرلیں این آر او نہیں دوں گا۔
اتوار کو پریڈ گرائونڈ میں پاکستان تحریک انصاف کے زیر اہتمام جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں اپنی قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ اس جلسے میں آئی اور اپنی ٹیم اور ارکان پارلیمان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جن کے ضمیر کو لالچ اور پیسے کے ذریعے خریدنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ ثابت قدم رہے جس پر مجھے فخر ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج کے جلسے میں بہت دور دور سے لوگ آئے ہیں اور میں ان سے اپنے دل کی باتیں کرنا چاہتا ہوں، میں بتانا چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف کی دعوت دینے کا مقصد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک نظریے کے تحت وجود میں آیا، وہ نظریہ یہ تھا کہ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا ہے جو ریاست مدینہ کے اصولوں پر قائم ہو۔ میں نے آج سے پچیس سال قبل اسی نظریے کے تحت تحریک انصاف بنائی تھی، اگر ہم اپنے نظریے پر کھڑے نہیں ہوں گے تو ہم قوم نہیں بنیں گے، ہم صرف ایک ہجوم ہوں گے کیونکہ قومیں نظریے سے بنتی ہیں۔ میں نے اپنے ذاتی تجربے سے اس نظریے کو سمجھا جب میں پاکستان سے باہر گیا تو میں نے دیکھا کہ ریاست مدینہ کے اصولوں پر اسلامی ملکوں میں عمل نہیں ہو رہا لیکن مغربی دنیا ان اصولوں پر عمل کر رہی ہے۔ برطانیہ میں عام آدمی کے بچوں کے لئے مفت تعلیم اور علاج کی سہولت موجود ہے، بیروزگاری کی صورت میں الائونس ملتا ہے اور عدالت میں انصاف ملتا ہے۔ نبی کریمؐۖ نے دنیا کی تاریخ میں پہلی ایسی ریاست بنائی جس نے غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور معذوروں کی ذمہ داری لی۔ میں نے یورپ اور سکینڈینیویا میں دیکھا کہ کیسے وہ اپنے غریب طبقے کو اوپر اٹھاتے ہیں، حال ہی میں چین نے اپنے ستر کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا۔ نبی کریمۖ رحمت للعالمینؐ بن کر آئے تھے، جو بھی انسانی معاشرہ آپۖ کے احکامات پر چلے گا، وہاں اللہ کی نعمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی۔ مسلمانوں نے نبی کریمۖ کی تعلیمات پر عمل کر کے صدیوں تک دنیا کی امامت کی، ہم بھی اسی راستے پر گامزن ہیں، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی تمام شہریوں کو یونیورسل ہیلتھ کوریج کی سہولت حاصل نہیں ہے، ہم نے اپنے شہریوں کو ہیلتھ انشورنس فراہم کی۔ اب ایک عام غریب آدمی بھی کسی بھی پرائیویٹ ہسپتال سے اپنا علاج کروا سکتا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت کسی حکومت نے کمزور طبقے پر اتنا پیسہ خرچ نہیں کیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت نے مہنگائی میں پسے طبقہ کے لئے احساس راشن پروگرام شروع کیا، گھر کی تعمیر کے لئے قرضے فراہم کئے، حکومت نے پٹرول کی قیمت 10 روپے بڑھانے کی بجائے 10 روپے کم کی اور اڑھائی سو ارب روپے کی سبسڈی دی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت میں بھی ہم نے پانچ روپے فی یونٹ کمی کی۔ جیسے جیسے ٹیکس بڑھتا جائے گا، معاشرے کے غریب طبقے کو مزید ریلیف دیں گے۔
وزیراعظم نے شرکاء کے جذبے اور جنون کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس جنون سے پاکستان کو دنیا کی عظیم قوم بنانا ہے۔ میں پچیس سال سے اس نظریے پر کھڑا ہوں، میرا ایمان ہے کہ ملک تب ترقی کرے گا، اگر ہم نبی کریمۖ کے راستے اور سنت پر چلیں گے۔ امیر سے ٹیکس اکٹھا کر کے غریب کو اوپر اٹھائیں گے۔ جب ہماری حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرے گی تو سارا پاکستان دیکھے گا کہ کسی حکومت کے دور میں غربت میں اتنی کمی نہیں ہوئی جتنی ہمارے دور میں ہوئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں انصاف اور قانون کی حکمرانی تھی، ایسا نہیں تھا کہ چھوٹا چور چوری کرے تو اسے سزا دی جائے اور کوئی بڑا چور چوری کرے تو اسے این آر او مل جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ غریب ملک وسائل کی کمی سے غریب نہیں بلکہ اس لئے غریب ہیں کہ طاقتور ڈاکوئوں کو ان کا نظام نہیں پکڑ سکتا اور انہیں این آر او مل جاتا ہے۔ حکمران غریب ملکوں سے پیسے چوری کر کے لندن میں محلات بناتے ہیں اور آف شور اکائونٹ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خلاف تین چوہے اکٹھے ہوئے ہیں جو تیس سال سے ملک کو لوٹ رہے ہیں اور عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ ان کی اربوں ڈالر کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں، یہ سارا ڈرامہ اس لئے کیا جا رہا ہے کہ میں مشرف کی طرح گھٹنے ٹیک کر انہیں این آر او دے دوں۔ یہ پہلے دن سے مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ جو بھی چوری کریں اور ڈاکے ماریں، ان سے نہ پوچھا جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ مشرف نے اپنی کرسی بچانے کے لئے ان چوروں کو این آر او دے کر اس قوم پر ظلم کیا جس کی وجہ سے یہ دس سال تک لوٹ مار کرتے رہے اور ہم ان کے لئے گئے قرضوں کی قسطیں ادا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اب یہ تیار ہو جائیں، یہ جو مرضی کرلیں، حکومت جاتی ہے تو جائے، جان جاتی ہے تو جائے، عمران خان ان کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ریاست مدینہ میں اقلیتیں بھی برابر کی شہری ہوتی تھیں اور انہیں خلیفہ کے خلاف مقدمہ میں بھی انصاف ملتا تھا، جو تحفظ مدینہ کی ریاست میں اقلیتوں کو حاصل تھا، وہ آج بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتا۔ نبی کریمۖ انسانوں کو تقسیم کرنے کے لئے نہیں بلکہ اکٹھا کرنے کے لئے آئے تھے، ہم بھی اسی راستے پر گامزن ہیں اور ایسی خارجہ پالیسی لائیں گے کہ پاکستان جنگ میں کسی کے ساتھ شریک نہ ہو اور امن کے لئے سب کو اکٹھا کرے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت نے خواتین کو وراثت میں ان کا حق دلانے کے لئے قانون سازی کی کیونکہ نبی کریمۖ نے 1500 سال پہلے خواتین کو وراثت میں ان کا حق دیا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مدینہ کی ریاست میں غلاموں کو بھی ان کے حقوق ملے اور وہ حکمرانی کے منصب تک پہنچے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں امر بالمعروف کا حکم دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم پر لازم ہے کہ بدی اور برائی کے خلاف جہاد کرے اور اچھائی کے ساتھ کھڑی ہو۔ جب عراق پر امریکہ حملہ کرنے والا تھا تو برطانیہ میں بیس لاکھ لوگ سڑکوں پر نکلے، اسے امر بالمعروف کہتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے ہماری حکومت گرانے کا فیصلہ کیا ہے اور ضمیروں کا سودا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان تباہ ہو رہا ہے جبکہ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ ساڑھے تین سال میں کسی حکومت نے ہماری جیسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ سو سال میں کورونا وائرس جیسا بڑا بحران آتا ہے، اس کے باعث پوری دنیا بند ہوئی، لاک ڈائون لگ گئے جس سے عام مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہوا، مجھ پر بڑی تنقید ہوئی لیکن میں نے اپنے ملک کو بند نہیں کیا۔ ساری دنیا نے اس بحران میں ہماری کارکردگی کا اعتراف کیا کیونکہ ہم نے قوم کو کورونا سے بھی بچایا، اپنی معیشت کو بھی بچایا اور غریبوں کو بھی۔ ورلڈ بینک نے رپورٹ دی کہ برصغیر میں سب سے کم بے روزگاری پاکستان میں ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے باوجود ہماری معیشت نے 5.6 فیصد کی شرح سے ترقی کی جس پر اپوزیشن سمیت سب دھنگ رہ گئے۔ ملکی تاریخ میں ہم نے سب سے زیادہ برآمدات کیں، سب سے زیادہ ٹیکس جمع کیا، سمندر پار پاکستانیوں کو مراعات دیں۔ انہوں نے سب سے زیادہ ڈالر اور زرمبادلہ بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے تعمیرات کی صنعت کے لئے آسانیاں پیدا کیں جس سے 1500 ارب روپے دولت کی پیداوار ہوئی، مزید تیس صنعتیں بھی تعمیرات کے شعبہ سے وابستہ ہیں اس لئے ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بے روزگاری نہیں ہوئی۔ ہماری 60 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے، ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ پیسہ زراعت کے شعبہ میں گیا، پانچ فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی، ہم نے کسانوں کی مدد کی، پہلے شوگر ملز مافیا کسانوں کو پیسے نہیں دیتا تھا، ہم نے یہ پیسہ دلوایا جس کی وجہ سے کسانوں نے اپنی فصلوں پر پیسہ خرچ کیا اور پیداوار بڑھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، ٹیکسٹائل ملوں کو مزدور نہیں ملتے، ملک انڈسٹریلائزیشن کی طرف جا رہا ہے، حکومت نے صنعتوں کے لئے پیکیج دیئے، اس سے ٹیکس بڑھے گا تو قوم کے لئے مزید آسانیاں پیدا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ غریب تنخواہ دار طبقہ کو گھروں کی تعمیر کے لئے بینک اب قرضے دے رہے ہیں، حکومت نے سستے گھروں کی تعمیر کے لئے 30 ارب روپے کی سبسڈی دی، روٹی کپڑا مکان کا نعرہ کسی اور نے لگایا لیکن اس پر عمل ہم نے کیا، تیس سال سے حکومت کرنے والوں نے پانی کے مسئلے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ ہماری حکومت نے پچاس سال بعد پہلی مرتبہ ڈیمز بنائے۔ 2025ء میں مہمند ڈیم، 2027ء تک داسو ڈیم اور 2028ء تک بھاشا ڈیم بن جائیں گے۔ اس سے زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند ہوگی اور آب پاشی اور شہری ضروریات کے لئے پانی بھی دستیاب ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ اینکرز کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے پروگراموں میں معیشت کے ماہرین کو بلائیں اور ان سے موازنہ کروائیں کہ ساڑھے تین سال میں ہماری حکومت نے معیشت کے لئے کیا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پہلی مرتبہ اسلام آباد کے بعد نیا شہر راوی سٹی بن رہا ہے، اس میں دو کروڑ درخت لگائے جائیں گے۔ والٹن ایئر پورٹ کو تبدیل کر کے اس کی جگہ سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ بنائیں گے جو ایک جدید شہر ہوگا۔ راولپنڈی میں نالہ لئی کا منصوبہ بن رہا ہے جس سے راولپنڈی ایک جدید شہر میں تبدیل ہو جائے گا، یہاں بلند عمارتیں تعمیر ہوں گی تو شہروں کا پھیلائو روکنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ شہروں کے لئے نئے ماسٹر پلان بنائے جا رہے ہیں، زرعی مقاصد کے لئے زمینیں بچائیں گے، کسی حکومت نے تیس سال میں ایسے کام نہیں کئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 11 سال پہلے بلوچستان میں کوئلہ اور تانبا نکالنے کے لئے مائننگ کمپنیاں آئیں، یہ معاملہ عدالت میں گیا اور بین الاقوامی ادارے سے پاکستان کو 2 ہزار ارب کا جرمانہ ہوا، ہم سے پہلے دو حکومتیں اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکیں۔ ہماری حکومت نے تین سال میں مسلسل مذاکرات کر کے جرمانہ بھی ختم کروایا اور وہی کمپنی اب پاکستان میں 9 ارب ڈالر کی تاریخی سرمایہ کاری کر رہی ہے جس کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کے عوام کو ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اپنے قدرتی وسائل کی بدولت پاکستان کا مستقبل روشن ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں رینٹل پاور میں کرپشن ہوئی اور بین الاقوامی عدالت سے 200 ارب کا جرمانہ ہوا، میں نے طیب اردوان سے بات کر کے یہ جرمانہ ختم کروایا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے آئی پی پیز اور گیس کے جو معاہدے کئے، ہم نے دوبارہ ان سے مذاکرات کر کے نئے معاہدے کئے اور نئے معاہدے سے 700 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
وزیراعظم نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کا محکمہ اپنے پاس رکھتے تھے کیونکہ 2013ء میں جو سڑکیں بنیں ان کی لاگت 2021ء میں بننے والی سڑکوں سے 23 کروڑ روپے فی کلو میٹر زیادہ ہے جس پر میں مراد سعید کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس سے ن لیگ کی کرپشن واضح ہے اور پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ملک کو لوٹا گیا اور ن لیگ نے ایک ہزار ارب روپے کی چوری کی جبکہ ہماری ایماندار حکومت نے ان کی نسبت دوگنا سڑکیں تعمیر کیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ تیس سال جو جماعتیں اقتدار میں رہیں، انہوں نے کبھی آنے والی نسلوں کا نہیں سوچا۔ ہماری حکومت نے ماحولیات کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے، خیبر پختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے اور اب دس ارب درخت لگا کر آنے والی نسلوں کے لئے بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں گے، ان کو اس لئے ملک کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کیونکہ انہوں نے اپنی چھٹیاں لندن میں اپنے محلات میں گزارنا ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو سیاحت کا مرکز بنانا ہے، سکردو میں بین الاقوامی ہوائی اڈہ تعمیر کیا ہے، اس سے اسکئینگ کا مرکز بنائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ 25 سال پہلے جب میں نے سیاست شروع کی تو میں نے ”ایاک نعبدو و ایاک نستعین” کو اپنا نصب العین بنایا۔ پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ اللہ کا نعرہ ہمیں غیرت کا پیغام دیتا ہے۔ دنیا اس کی عزت کرتی ہے جو غیرت مند ہوتا ہے۔ جو انسانوں کے سامنے جھکتا ہے اس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں ہوتی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے حکمران سپر پاور کے سامنے سجدے کرتے تھے اور غیر ملکی امداد لے کر اپنے ملک پر بمباری کراتے تھے۔ 90ء کی دہائی میں رمزی یوسف کو امریکہ کے حوالے کیا گیا، مجھے شرم آئی کہ ہماری قوم غیرت مند ہے لیکن اس کے لیڈروں میں غیرت نہیں ہے۔ جو سربراہ اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا اور امداد کی لالچ میں گھٹنے ٹیک دیتا ہے، وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ بھیک اور قرضے مانگنے والی قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں، میں نے جب سیاست شروع کی تھی تو عہد کیا تھا کہ اپنی قوم کو کسی کے سامنے جھکنے نہیں دوں گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک کو پرانے لیڈروں کے کرتوتوں کی وجہ سے دھمکیاں ملتی رہیں اور ہمارے ملک میں ملک کے اندر موجود لوگوں کی مدد سے حکومتیں تبدیل کی جاتی رہیں، اپنے لوگوں کی مدد سے حکومتوں کو تبدیل کیا، ذوالفقار علی بھٹو جن سے میرے بہت اختلافات ہوں گے لیکن ان کی خودداری مجھے پسند تھی، نے جب ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دینے کی کوشش کی تو مولانا فضل الرحمان اور بھگوڑےنواز شریف کی جماعتوں کی اس وقت کی قیادت نے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور ملک میں آج جیسے حالات بنا دیئے گئے اور ان حالات کی وجہ سے بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ آج اسی بھٹو کے داماد آصف زرداری اور اس کے نواسے کرسی کی لالچ میں بھٹو کی قربانی کو بھلا کر اس کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھے ہیں اور ان کی وکالت کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ نانا کے نام پر سیاست کرنے والوں کو کرسی کی خاطر بھٹو کو پھانسی دلانے والوں کی وکالت پر شرم آنی چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آج ملک کو ایسے ہی حالات درپیش ہیں، باہر سے خارجہ پالیسی کو مروڑنے اور متاثر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پچھلے مہینوں سے ہونے والی اس سازش کا ہمیں پتہ ہے، آج یہ جو قاتل اور مقتول اکٹھے ہو گئے ہیں، ان کو اکٹھا کرنے والوں کا بھی ہمیں پتہ ہے لیکن آج وہ ذوالفقار علی بھٹو والا وقت نہیں ہے۔ اب دور بدل چکا ہے، اب سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور کوئی چیز چھپتی نہیں ہے۔ قوم بیدار ہے، ہم کسی کی غلامی قبول نہیں کریں گے۔ ہم سب سے دوستی کریں گے لیکن غلامی نہیں کریں گے۔ ہمارے ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، پیسہ باہر سے آرہا ہے لیکن لوگ ہمارے استعمال ہو رہے ہیں۔ زیادہ تر انجانے میں اور کچھ جان بوجھ کر ہمارے خلاف یہ پیسہ استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ باہر کے اربوں روپے لے کر حکومت کے خلاف سازش کرنے والے غلاموں کو کامیاب ہونے دیں گے؟ وزیراعظم نے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے آج آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ ایک جمہوری شخص عوام کے پاس جاتا ہے، وہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور چھپتا نہیں ہے، ہمیں پتہ ہے کہ کن کن جگہوں سے باہر سے ہم پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے لیکن ہم ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
وزیراعظم نے اس موقع پر قوم کے سامنے خط لہراتے ہوئے کہا کہ یہ خط میرے پاس ثبوت کے طور پر موجود ہے، میں قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، الزامات نہیں لگا رہا، کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں اپنی قوم اور میڈیا سے یہ کہتا ہوں کہ ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم کب تک ایسے رہنا چاہتے ہیں۔ بیرونی سازش کی ایسی بہت سی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر سامنے لائی جائیں گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ میری قوم جاننا چاہتی ہے کہ لندن میں بیٹھا ہوا شخص کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے پر چل رہے ہیں۔
وزیراعظم نے شرکاء سے سوال کیا کہ کیا انہیں اندازہ ہے کہ یہ کس کے کہنے پر چل رہے ہیں؟ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں، میں زیادہ تفصیل نہیں بیان کرنا چاہتا اور ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے ملک کے مفاد کو نقصان پہنچے لیکن مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری قوم بہت عظیم ہے لیکن اگر ہم اس عظمت پر نہیں پہنچ سکے تو اس کی وجہ چور حکمران ہیں جو 90ء کی دہائی میں سیاست پر حاوی ہوئے۔ ان کی وجہ سے بھارت اور بنگلہ دیش جیسے ملک ہم سے آگے نکل گئے جبکہ یہ دونوں چور ملک کا پیسہ چوری کر کے باہر لے جاتے رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہم ترقی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ 25 سال سے میں ان کا مقابلہ کر رہا ہوں، میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔ نواز شریف نے سرکاری بینکوں سے قرضے لے کر فیکٹریاں لگائیں اور قرضے معاف کروائے، اسے بزنس نہیں ڈاکہ کہتے ہیں۔ میں وہ کپتان ہوں جس نے پاکستان کو ورلڈ کپ جتوایا، چوبیس میں سے 19 میچ جتوائے۔ بھارت میں ان کے اپنے ایمپائروں کے باوجود جیت کر آیا۔ میری حکومت جب سے اقتدار میں آئی، پہلے دن سے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں نے مجھے این آر او کے لئے بلیک میل کرنا شروع کیا۔
وزیراعظم نے خبردار کیا کہ تحریک عدم اعتماد میں جو جو ووٹ ڈالنے جائیں گے قوم انہیں معاف نہیں کرے گی، یہ جتنا مرضی کہیں کہ حکومت نے اچھا نہیں کیا، کام نہیں کئے اور مہنگائی نہیں روکی، جمہوریت میں ایک ہی راستہ ہے کہ یہ استعفیٰ دیں لیکن 25 کروڑ روپے سامنے رکھ کر یہ کہنا کہ ضمیر جاگ گیا ہے، قوم انہیں معاف نہیں کرے گی۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ن لیگ والے کہتے تھے کہ زرداری کا پیٹ پھاڑ کر پیسہ نکالنا تھا لیکن جب سے شہباز شریف اور زرداری اکٹھے ہوئے ہیں، ن لیگ والے بھی بھول گئے ہیں کہ زرداری چور تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ رحمت اللعالمین اتھارٹی بنائی تاکہ نبی کریمۖ کی تعلیمات سے بچوں کو آگاہ کیا جا سکے اور وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بیس سال پیپلز پارٹی نے کہا کہ نواز شریف اور شہباز شریف سے بڑا کرپٹ کوئی نہیں لیکن نانا کے نام پر سیاست کرنے والا اب اپنے نانا کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھ گیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے خلاف سازش کا پتہ چلنے پر ہمارے لوگ بھی واپس آ جائیں گے اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ارکان کے ضمیر بھی جاگ جائیں گے۔ وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ دین کے نام پر سیاست کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں ”وزیراعظم” کو یہ سعادت بخشی کہ اقوام متحدہ میں جا کر ناموس رسالتۖ میں گستاخی اور اسلاموفوبیا کے خلاف آواز بلند کی اور قرارداد پاس کرائی۔ فضل الرحمان کو اللہ نے یہ سعادت نہیں بخشی کیونکہ ان کی نیت ٹھیک نہیں اور وہ اسلام کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں، درحقیقت انہوں نے اسلام کے لئے کچھ نہیں کیا۔ وزیراعظم نے شرکاء سے کہا کہ آپ سب مجھ سے وعدہ کریں کہ کبھی کسی حکمران کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ وہ میری قوم کو کسی کے آگے جھکائے۔ کسی کو ملک کے مفادات کے خلاف جانے کی اجازت نہیں دینی۔