حکومت کی تبدیلی اور ڈالر کی قیمت میں مسلسل اتار چڑھاؤ سے کراچی میں پانی کا میگا پروجیکٹ کے فور کا منصوبہ کی تعمیرات سے قبل ہی 25 ارب سے زائد بڑھنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
آٹھ میں سے پانچ منصوبے پر چین کی ٹھیکیدار کمپنی سے معاہدہ ہوگیا ہے،جس پر کام کرنے کے لئے تمام ٹھیکیداروں کوابتدائی رقم جاری کردی گئی ہے۔چینی کمپنیوں کے عملے کراچی پہنچ چکے ہیں ان کے دفاتر بھی کھل گئے ہیں۔افتتاحی تقریب کی تیاری جاری ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم پاکستان منصوبہ کاافتتاح کریں گے۔پہلے مراحل میں 260 ملین گیلن یومیہ کا منصوبہ ہے جس کی لاگت 126 ارب روپے خرچ ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن ڈالر بڑھنے سے اب تقریبا 148 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے،تاہم عالمی منڈی میں اسٹیل کے نرخ 300 ڈالرز کم ہونے کی وجہ سے لاگت روپے میں فرق پڑے گا۔
منصوبہ 110 کلومیٹر اسٹیل کے پریشر پائپ پر خرچ ہوگا۔اسٹیل پلیٹ چین سے درآمد اور مقامی کمپنی میں تیاری کا کام بھی چائنا ہاربر کمپنی کو دو منصوبہ کا ٹھیکہ 70ارب روپے میں دیا گیا ہے۔دو پمپنگ اسٹیشن کی تعمیرات کا ٹھیکہ ڈسکون کمپنی کو دیا گیا ہے جس میں عملے کی کالونی کے ساتھ سڑک کی تعمیرات کے مقامی ٹھیکے کے کام کا آغاز ہو گیا ہے۔میگا پروجیکٹ کے فور کے تین فلٹر پلانٹس کا ٹھیکہ بھی چینی کمپنی کو 23 ارب روپے میں دیا گیا جو اسے لینے کیلیئے کراچی پہنچ گئی ہے،جن میں دھابے جی، ایسٹ ویسٹ اور منگھوپیر فلٹر پلانٹس کا ٹھیکہ بالترتیب 8.48 ارب، 8,359 ارب روپے اور ایسٹ ویسٹ فلٹر پلانٹ کا ٹھیکہ چینی کمپنی نے 11.6 ارب روپے میں لیا ہے،یعنی سول و الیکٹریکل میکنکل ورک پرمجموعی طور پر 41 ار ب روپے،کنسلٹنٹ کمپنی کو ایک ارپ 18کروڑ روپے مختص کی گئی ہے۔
واپڈا کیلئے اس منصوبہ کے عملدرآمد،نگرانی اور کام کا معاوضہ 8 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے، تین فلٹریشن پلانٹس کا 23 ارب روپے مالیت کا ٹھیکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر عبدالرزاق داود کی کمپنی ڈیسکون نے حاصل کیا ہے۔
منصوبے کے کنسلٹنٹ کمپنی ٹیکنو انٹریشنل حکام کا کہنا ہے کہ اسٹیل پائپ سے پانی چوری، ضائع اور غیر قانونی کنکشن کا خطرہ نہیں ہوگا۔پائپ میں سوارخ نہیں ہوسکتا،پریشر پائپ کا تجربہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے۔یہ اقدام ڈی ایچ اے فیز نائن اور بحریہ ٹاون کراچی میں پانی کی چوری ہونے کی خدشات کے پیش نظر ڈیزائن کی گئی ہے اور بہت کامیاب ہے۔
واپڈا اور کنسلٹنٹ حکام کا کہنا ہے کہ پانی کی فراہمی کو ایک پمپنگ اسٹیشن سے سپلائی کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ میگا پروجیکٹ کے فور کا روٹ تبدیل کردیا گیا ہے۔نہروں کی کھدائی اور اس کے روٹس پر تعمیراتی کام کا استعمال اب نہیں ہوگا۔
میگا پروجیکٹ کے 12 ارب روپے ڈوبنے کی تحقیقات ہونے کی توقع نہیں ہے،اس بارے میں وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان باہمی معاہدہ ہوگیا ہے۔
منصوبے کو تین مرحلوں میں مکمل کیا جائیگا۔پہلا منصوبہ دو سال میں یعنی دسمبر 2024ء تک مکمل کرنا ہے،دیگر منصوبے پانچ یا سات سال لگنے کا امکان ہے۔منصوبہ 650 کروڑ گیلن کے بجائے پہلے مراحل میں 260 ملین گیلن یومیہ کا منصوبہ ہے جس کی لاگت 126 ارب روپے آئے گی۔پہلے یہ منصوبہ صرف 25 ارب روپے مالیت کا تھا۔ 2016-2018 میں تعمیرات مکمل ہونا تھا,ڈائزین نقشہ میں روٹس کی تبدیلی اور کینجھر جھیل کی ترقی کسی اسٹاک ہولڈر سے مشاورات کے بغیر کی گئی ہے۔اور یہ جیو گرافک کے بغیر کی گئی ہے۔نیا ڈیزائن و نقشہ عثمانی اینڈ کمپنی کا چربہ قرار دیا جارہا ہے۔اس نقشہ کو پرانے نقشے کو اپ گریڈ کرکے کیا گیا ہے۔میگا پروجیکٹ کے فور کی نئی کنسلٹنٹ کمپنی ٹیکنو انٹریشنل اور نیشنل واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا)نے جلد بازی کے دوران پرانی غلطی کے ساتھ قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کئے۔واپڈا کے اس اہم پروجیکٹ میں فاش غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پروجیکٹ کی اجازت دینے پر ماہرین نے اسے غیر قانونی قرار دیدیا ہے۔یہ غلطی سابقہ کنسلٹنٹ عثمانی اینڈ کمپنی نے بھی کی تھی۔انہوں نے ڈیزائن و نقشہ قانونی تقاصہ کے تحت آزادنہ طور پر دوسری کمپنی سے چیک کرائے بغیر تعمیراتی کام کا آغاز کر دیا تھا۔جس کے نتیجے میں بعض چھوٹے بڑی خامیاں اور نقائص منظر عام پر آگئے تھے اور تعمیراتی کام پہلے معطل اورپھر صرف آٹھ ماہ میں تعمیرات بند ہو گیا تھا۔ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ ہمارے تیاری نہیں سندھ حکومت نے منصوبے کا پارٹ، زمین کا حصول میں مدد، 100میگا واٹ بجلی کا منصوبہ بنانے، پانی شہر میں تقسیم اور اس کا نظام بنانے کے ساتھ کینجھر جھیل میں پانی کے نظام بنانے پر 100ارب روپے سے ذائد خرچ کرے گی۔
وفاق اور سندھ حکومت کے معاہدہ کی وجہ تاخیر ہونے پر منصوبہ پر ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔واضح رہے کہ پانی کے منصوبے کے فور میں 11,396 ایکٹر پر گورنمنٹ لینڈ اور1,053 ایکٹر اراضی کی پرائیویٹ لینڈ حاصل کی جائے گی۔جن میں صرف 70 کھاتے داروں نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔
یاد رہے کہ میگا پروجیکٹ 2007ء میں سابق ناظم کراچی سید مصطفی کمال کے دور میں شروع کیا گیا تھا۔ منصوبہ کا پی سی ون 2011ء میں مکمل ہوا،سندھ حکومت نے 2014ء میں اس کی منظور دی۔ منصوبہ کا ٹھیکہ 2016ء میں دیاگیا تھا اور جون2018ء میں مکمل کرنا تھا۔منصوبے کی لاگت کا 12ارب روپے اور 25 ارب روپے مالیت کے دو ٹھیکے بھی دے دیئے گئے تھے اور ریوائز پی سی ون 44 ارب روپے مالیت کا تھا منصوبہ پر 11.75 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔