عروس البلاد کراچی شہر کو وفاق کے زیر انتظام فیڈرل ٹریٹی اور حیدرآباد کو سندھ کا دارالخلافہ بنانے کا فیصلہ۔
کراچی ویژن 2050 تیار کر لیا گیا، 2020 سے 2050 تک کراچی ماسٹر پلان کی تیاری شروع۔ کراچی کو مستقل طور پر وفاق کے زیر کنٹرول رکھا جائے گا۔ فاٹا کی سینٹ نشستیں ختم کرکے کراچی کو الاٹ کی جائے گی
وفاقی حکومت پہلے مرحلے میں سندھ میں گورنر راج نافذ کر کے صوبائی حکومت کو برطرف کر کے پولیس میں آئی جی سندھ سے لے کر ایس ایس پی اور کراچی کے تمام پولیس اسٹیشن کے عملے کو تبدیل کیا جائے گا۔ جس کے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کر کے کراچی کو وفاقی علاقہ ڈکلیئر کر کے چیف ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا جائے گا۔
سندھ اور کراچی میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے چھ مہینوں تک دفعہ 144 نافذ کر کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے فوج کو تیار رکھا جائے گا۔
گورنر راج سے پہلے رینجرز اور ایف سی کے اضافی دستے کراچی اور سندھ بھیجے جائیں گے ریلی نکالنے ہڑتال کرنے اور امن امان خراب کرنے والے ملک دشمن قوم پرست اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کارکنوں کی گرفتاریاں ہوں گی۔
قوم پرست رہنماؤں اور سرگرم قوم پرست کارکنوں کی لسٹیں تیار کرلی گئی ہیں اداروں کی جانب سے رپورٹ مین ظاہر کیا گیا ہے کہ قوم پرست بڑے پیمانے پر غیر سندھیوں پر حملہ آور ہو سکتے ہیں اس لئے ان کے اوپر سخت نظر رکھیں جائے۔
حکومت وفاقی بلدیاتی ایک نافذ کرے گی کراچی میں ڈسٹرکٹ ختم کرکے 40 ٹائون اور 320 یونین کمیٹیاں بنائے جائیں گے ہر سال وفاقی پول سے کراچی بلدیاتی حکومت کو 50ارب روپیہ دیا جائے گا۔
تعلیم،صحت، پولیس، لینڈ اینڈ یوٹیلائزیشن، کسٹم۔ ٹیکس اینڈ روینیو، ساحلی کوسٹل ایریاز، معدنیات، کے ڈی اے، فشریز، انڈسٹریل ایریاز وفاق کے کنٹرول میں رہے گی اس کے علاوہ پانی، سیوریج، ٹریفک، ٹرانسپورٹ،پارک اینڈ گراؤنڈ، مارکیٹ بازار پارکنگ، سیاحت، سبزی منڈی، برساتی نالے، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، بلدیاتی حکومت میئر کراچی کے اختیارات اور کنٹرول میں دیے جائیں گے۔
کراچی وفاق کے کنٹرول میں آنے کے بعد وفاقی حکومت کو 472ارب روپے اضافی آمدنی ہوگی ملک معاشی لحاظ سے مستحکم ہوگا۔
اربن اور رورل کوٹہ سسٹم ختم کر کے موجودہ وفاقی کوٹہ سسٹم لاگو کیا جائے گا، کراچی میں رورل کوٹہ سے نوکری حاصل کرنے والے ایک لاکھ ملازمین کو سندھ واپس بھیجا جائے گا جس کے بعد کراچی سمیت ملک بھر کے نوجوانوں کو وفاقی کوٹہ پر روزگار کے نئے مواقع ملے گی۔
کراچی کی حدود میں تحصیل میرپور ساکرو، کیٹی بندر، گڈانی، حب، مکمل طور پر شامل کر لیے جائیں گے تھانہ بولا خان ، ٹھٹہ تحصیل کا بڑا علاقہ بھی کراچی میں شامل کر کے گجو اور نوری آباد تک کا اضافہ کیا جائے گا۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر وہاں دو نئے شہر بسائے جائیں گے۔ حب ، دھابیجی اور نوری آباد میں ملک کے سب سے بڑے 3 انڈسٹریل زون اور میر پور ساکرو میں پورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس سے 2030 تک 10 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا. حب اور کڈانی تحصیلوں کو کراچی میں شامل کرنے کے بدلے بلوچستان حکومت کو 10 ارب دیے جائیں گے جہاں 12 لاکھ پلاٹوں پر مشتمل پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا جس میں 2 لاکھ پلاٹ بلوچستان کے لئے رکھے جائیں گے, گڈانی بیچ کو بین القوامی طرز پر تبدیل کرنے کے لئے کمپنیوں سے دو مہینے پہلے ہی وفاقی حکومت رابطہ کر چکی ہے کراچی ایم نائین موٹروے پر ملک کا سب سے بڑا انٹرنیشنل ایئرپورٹ تعمیر ہوگا جب کہ وفاقی حکومت پہلے ہی سمندر کے نزدیک بیراج بنانے کا اعلان کر چکی ہے جہاں سے کراچی کو پانی دیا جائے گا جب کہ موٹروے پر بننے والی نئی آبادیوں کے لئے کی کینجھر جھیل سے پانی کی لائن بچھائی جائے گی۔ اس کے علاوہ کراچی کے دو جزیروں پر عالمی کمپنیوں کے ساتھ مل کر ہانگ کانگ طرز کا جدید انٹرنیشنل شہر آباد کیا جائے گا اس سلسلے میں کمپنیوں سے 50 ارب ڈالر کی ڈیل آخری مراحل میں ہے۔
لاہور اور فیصل آباد کے 325 سے زائد صنعتی سرمایہ دار دابیجی نوری آباد اور حب انڈسٹریل زون میں 500 نئے کارخانے لگائیں گے جب کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور دیگر ادارے تقریبا 56 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری زون میں کریں گی۔ موٹروے ایجوکیشن سٹی میں نئی یونیورسٹیاں بنائی جائے گی.