ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس(اے سی سی اے) نے مارچ، 2021ء میں ہونے والے امتحانات کے پاس ریٹس کا اعلان کر دیا ہے جس میں تین پاکستانی اسٹوڈنٹس بھی عالمی انعام یافتگان کی فہرست میں شامل ہیں جس سے ملک کا سر فخر سے بلند ہو گیا ہے۔ اِن تینوں اسٹوڈنٹس نے دنیا بھر سے ان امتحانات میں شریک ہونے والوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔
زارا نعیم ڈار اور محمد عبداللہ جیسے پاکستانی اسٹوڈنٹس کی حالیہ کامیابیوں سے متاثرہونے کے بعدیہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ملک کے نوجوان تعلیم کے میدان میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر پاکستان کو اکاؤنٹنسی اور فنانس کے شعبوں، عالمی معیار کے ہب کے طور پر دنیا بھر میں نمایاں کر رہے ہیں۔
اس کامیابی کے حوالے سے اے سی سی اے پاکستان کے ہیڈ سجید اسلم نے کہا:”کووڈ19- جہاں ہمارے دور میں سب سے بڑا چیلنج رہا ہے، ہمارے اسٹوڈنٹس نے اے سی سی اے کے حالیہ امتحانات میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ہمیں اس حقیقت پر خاص طور پر فخر ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اے سی سی اے کے اسٹوڈنٹس، امتحانات میں غیر معمولی کارکردگی سے،مسلسل اپنے ملک کو فخر کے قابل بنا رہے ہیں۔ ہم عالمی پلیٹ فارمز اور کیریئر کے زبردست مواقع پیش کر کے اپنے نوجوانوں کے خوابوں کو حقیقت بناتے رہیں گے۔“
اکاؤنٹنسی کے عالمی معیار کے پیش نظر، اے سی سی اے کی کوالیفکیشن کے لیے مہارتوں، صلاحیتوں اور استعداد کی سختی سے جانچ کی جاتی ہے جو جدید دور کے کاروباری پیشہ ور افراد کی ضرورت ہے اور اِس دوران اُن کی مضبوط اخلاقیات اور پیشہ ورانہ دیانت کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے۔یہ اسٹوڈنٹس کو سند یافتہ اور اخلاقی مالی پروفیشنل کے طور پر ایک فائدہ مند، عالمی کیریئر کے لیے تیار کرتا ہے۔
ایسوسی سی ایشن کے مارچ 2021ء میں ہونے والے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے والی کہف معیدکراچی سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکی ہیں جنھوں نے آڈٹ اور ایشورینس کے امتحانات میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں اور ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا ہے کہ نوجوان خواتین اِس ملک کا روشن مستقبل ہیں۔ کہف کے والد ایک ٹیلی کام انجنیئر ہیں اور دبئی میں کام کرتے ہیں جبکہ ُان کی والدہ پاکستان میں اُنھیں تمام ممکنہ اعانت فراہم کرتی ہیں اور کہف کو اس بات کا موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ پیشہ ورانہ اکاونٹنسی میں اپنی پرواز کی آزمائش کریں۔
اے سی سی اے کی عالمی انعام یافتہ کہف معید کہتی ہیں:”میٹرک کے بعد میری والدہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں تھیں لہٰذا وہ ہر ایسی کوشش کر رہی ہیں جو کر سکتی ہیں تاکہ اپنی بیٹی کو اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے اور خاندان کے لیے فخر کا باعث بننے کا موقع دے سکیں۔“
اس سے قبل، کہف سائنس کی طالبہ تھیں جس نے اپنا اے لیول حیاتیات، طبیعات، کیمیا اور حساب جیسے مضامین کے ساتھ پاس کیا۔ امتحانات میں اپنی
غیر معمولی کارکردگی کے باعث اُنھیں اے لیول کرنے کے لیے، اْن کے کالج کی جانب سے اسکالرشپ بھی دی گئی۔
عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے، لچک اور باکفایت ہونا ان چند وجوہات میں سے ہیں جن کی وجہ سے کہف نے اے سی سی اے کا انتخاب کیا۔ کہف نے مزید کہا: ”میں اس خیال سے بہت متاثر ہوئی کہ اے سی سی اے میں پڑھنے کے ساتھ آپ کے پاس، آکسفرڈ بروکس سے بی ایس سی کرنے اور یونیورسٹی آف لندن سے ایم ایس سی کرنے کا آپشن بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ ایک بہترین امتزاج ہے جس کی میں خواہش کر سکتی ہوں۔“
اے سی سی اے پاس کرنے کے بعد کہف متعدد بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتی ہیں اور عالمی اداروں میں خدمات انجام دینا چاہتی ہیں۔ وہ پاکستانی خواتین کے بارے میں پائے جانے والے غلط تصورات کو بھی درست کرنا چاہتی ہیں کہ وہ پس ماندہ اور محروم ہیں۔
کہف کہتی ہیں:”ہم اْن میں سے نھیں ہیں جن کے پر کٹے ہوئے ہیں۔ ہم پہلے ہی بلندی پر پرواز کر رہی ہیں اور فرق پیدا کر رہی ہیں۔ پاکستانی خواتین مستقبل کی عالمی راہنما ہیں اور یہ محض وقت کی بات ہے کہ دنیاانھیں خود دیکھے گی۔“
فاکہ مقصودایک اور ذہین نوجوان لڑکی ہیں جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ انھوں نے ایڈوانسڈ ٹیکسیشن کے امتحان میں دنیا بھر میں ٹاپ کیاہے۔ انھوں نے، اسٹریٹیجک بزنس رپورٹنگ کے امتحان میں،کسی بھی پاکستان میں کسی بھی اسٹوڈنٹ کے مقابلے میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں۔
پاکستان سے اپناO/A کا امتحان پاس کرنے کے بعدفاکہ برطانیہ چلی گئیں تاکہ وہاں یونیورسٹی آف لندن سے، اکاؤنٹنگ اور فنانس میں بی ایس سی آنرز کر سکیں۔ یہاں انھوں نے پورے بیچ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ فاکہ نے پنجاب سے بھی اے لیول کے امتحانات میں ٹاپ کیا اور اے سی سی اے کے فنانشل منیجمنٹ کے امتحان میں قومی پوزیشن ہولڈر ہیں۔
فاکہ کہتی ہیں:”میرے والد بھی ایک پیشہ ور اکاؤنٹنٹ ہیں اور یہ اْن کی دیانتداری، ڈسپلن اور دلجمعی ہے جس نے مجھے اکاؤنٹنسی کو اپنے لیے بطور کیرئیر اختیار کرنے کے قابل بنایا۔ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد، مجھے عالمی سطح پر اے سی سی اے کو تسلیم کیے جانے اور لا محدودمواقع کے بارے میں معلوم تھا جو یہ کوالیفکیشن پیش کرتی ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ میں نے،پاکستان آنے کے فوراً بعد، خود کر اے سی سی اے میں داخلہ لے لیا۔“
اے سی سی اے پاس کرنے کے بعد، فاکہ فیصل آباد کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو جدید بنانے میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔ اپنی عالمی مہارت استعمال کرتے ہوئے اور مستقبل کے حوالے سے اے سی سی اے میں حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر، وہ اس سیکٹرکو مستقبل کے لیے تیار کرنا چاہتی ہیں اور جدت و ڈیجیٹائزیشن اختیار کر کے دنیا کے سب سے بڑے برآمدی شہر کے طور پر عالمی میدان میں اس کی بحالی چاہتی ہیں۔
علی شان کا تعلق بھی کراچی سے ہے جنھوں نے فنانشل رپورٹنگ کے امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں اور اْنھیں بھی، دنیا بھر کے دیگر اسٹوڈننٹس میں نمایاں کارکردگی پر عالمی انعام یافتہ قرار دیا گیا ہے۔
علی اپنے خاندان کے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں اور وہ خود اپنے لیے اور اپنے اطراف میں موجود دیگر افراد کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ علی کے والد مارکیٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ اْن کی والدہ ایک اسکول میں استانی ہیں۔علی نے اپنی اے سی سی اے کی تعلیم کا آغاز کامرس کے مضامین میں انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعدشروع کردیا تھا۔ انھوں نے انٹرمیڈیٹ میں A-1 گریڈ حاصل کیا تھا۔
علی شان کہتے ہیں:”میں ہمیشہ اعداد سے متاثر ہوتا رہا ہوں اور تجزئیے سے لطف اٹھاتا ہوں۔ لہٰذا اکاؤنٹنگ میرا قدرتی انتخاب تھی۔ ہمارے ملک میں کاروباری ادارے جس طرح کام کرتے ہیں میں اُسے تبدیل کرنا چاہتا ہوں اورمیں جدت کے فروغ اور کام کی جگہ پر اخلاقیات کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔ایک ملک کے طور پر، ہم پیچھے رہ گئے ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ،بدقسمتی سے، ہم نے غیر اخلاقی طریقوں کو معمول بنالیا ہے اور مختلف کاموں کو انجام دینے کے لیے نئے طریقے اختیار کرنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ اے سی سی اے میں حاصل ہونے والے علم کی بنیاد پر میں کارپوریٹ سیکٹر میں تبدیلی کیلیے ایک عمل انگیز بننا چاہتا ہوں۔“
دنیا کے 176ممالک میں 227,000 ارکان اور 544,000 مستقبل کے ارکان کے ساتھ، اے سی سی اے کو ایک عالمی پاسپورٹ تصور کیا جاتا ہے جو حقیقی معنوں میں ممتاز برانڈز کے ساتھ عالمی کیرئیربنانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔