وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یورپی اور مغربی ممالک ناموس رسالت ﷺکے معاملے کو آزادی اظہار کا مسئلہ سمجھتے ہیں، مسلم دنیا کو مل کر مغرب کو سمجھانا ہو گا، وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سفیر کو نکالنے اور فرانس سے تعلقات منقطع کرنے سے فرانس کا کچھ نہیں بگڑے گا، یورپی اور مغربی ممالک ناموس رسالتۖ ﷺکے معاملے کو آزادی اظہار کا مسئلہ سمجھتے ہیں، فرانس کے بعد ہم اور کس ملک کے سفیر کو واپس بھیجیں گے، 50اسلامی ملکوں میں سے کہیں بھی اس طرح کے مظاہرے نہیں ہوئے نہ کسی نے سفیر کو واپس بھیجا، مسلم دنیا کو مل کر مغرب کو سمجھانا ہو گا کہ یہ آزادی اظہار کا مسئلہ نہیں ہے، میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں اور اس مہم کی قیادت کروں گا، گزشتہ ہفتہ کی صورتحال سے ملک کا بہت نقصان ہوا، باہر کے دشمن بھی اس صورتحال میں کود پڑے،4لاکھ ٹویٹس میں سے 70فیصد جعلی اکائوٹس سے کی گئیں، بھارت جعلی ویب سائٹوں کے ذریعے پروپیگنڈہ کر رہا ہے، (ن) لیگ اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لئے ساتھ مل گئے۔
پیر ک پاکستان ٹیلی ویزن پر و قوم سے اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پچھلے ہفتہ کے دوران افسوس ناک حالات پیش آئے، اس کے پیش نظر میں نے قوم سے مخاطب ہونے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، قیام پاکستان کے وقت پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کا نعرہ لگایا گیا۔
اس ملک کے بسنے والے شہری جتنے بھی گناہگار ہوں اور اسلام پر عمل کریں یا نہ کریں لیکن نبی کریمۖ ﷺدلوں میں بستے ہیں۔
دنیا میں کہیں بھی آپۖ کی شان میں گستاخی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو نہ صرف ہمیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ حالیہ واقعات کے دوران ایک جماعت نے ایسا رویہ اختیار کیا کہ جس سے ایسا تاثر ابھرا کہ انہیں باقی پاکستانیوں سے زیادہ نبی کریمۖ ﷺسے عشق ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ جس وجہ سے ٹی ایل پی لوگوں کو سڑکوں پر نکال رہی ہے میرا مقصد بھی وہی ہے، ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے نبیۖ کی شان میں گستاخی نہ ہو لیکن طریقہ کار کا فرق ہے۔
ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پوری دنیا میں کہیں نبی کریمۖ ﷺکی شان میں گستاخی کا کوئی واقعہ نہ ہو۔
ٹی ایل پی والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ فرانس کے سفیر کو واپس بھیجا جائے اور رابطے ختم کر دئیے جائیں۔ ہمارا اور ان کا مقصد یہ ہے کہ نبی کریمۖ ﷺکی بے حرمتی نہ کی جائے لیکن ہمارا طریقہ کار الگ ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 1990ء میں سلمان رشدی نے کتاب لکھی جس میں نبی کریمۖ ﷺکی شان میں گستاخی کی گئی ۔ پاکستان میں عوام اس کے خلاف سڑکوں پر نکلے۔
امریکی سفارت خانے پر حملہ ہوا جس میں شہادتیں ہوئیں۔ اس کے بعد سے ہر چند سال بعد مغرب کے کسی نہ کسی ملک میں گستاخی کا واقعہ رونما ہوتا ہے جس کے خلاف ہمارے ملک میں بھی مظاہرے ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں ردعمل آتا ہے لیکن کیا اس اپروچ سے کوئی فرق پڑا ہے؟ وزیراعظم نے کہا کہ ٹی ایل پی بھی مظاہرے کر رہی ہے، پہلے بھی کیے ہیں لیکن کیا فرانس کے سفیر کو نکالنے یا تعلقات ختم کرنے سے یہ سلسلہ رک جائے گا، کیا کوئی گارنٹی ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ مغرب کو جانتا ہوں اگر ہم ایسا ردعمل دیں گے تو کسی اور یورپی ملک میں ایسا کوئی واقعہ ہو گا کیونکہ انہوں نے اسے آزادی اظہار کا مسئلہ بنایا ہوا ہے تو کیا ہم پھر کسی دوسرے یورپی ملک کے خلاف بھی ایسا ردعمل دیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ پچاس سے زائد مسلمان ملکوں میں کہیں بھی ایسے مظاہرے نہیں ہوئے، نہ ہی کہیں سے فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ہمیں فرق پڑے گا۔ ہماری معیشت بڑی مشکل سے اوپر اٹھ رہی ہے، ہماری صنعت ترقی کر رہی ہے، روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، دولت کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے، روپیہ مستحکم ہو رہا ہے۔
فرانسیسی سفیر کو نکال کر تعلقات توڑنے کا مطلب یورپی یونین سے تعلقات توڑنا ہے۔
ہماری آدھی سے زائد ٹیکسٹائل کی برآمدات یورپی یونین میں جاتی ہیں، یورپی یونین سے تعلقات ٹوٹنے سے ہماری برآمدات کو شدید نقصان پہنچے گا، ہماری صنعتیں بند ہو جائیں گی جس سے غربت اور مہنگائی بڑھے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال کا نقصان فرانس کو نہیں بلکہ ہمیں ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ دو اڑھائی ماہ سے ہم مذاکرات کر رہے تھے اور نقصانات سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ معاملہ اسمبلی میں لایا جائے ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ ہم یہ معاملہ اسمبلی میں لاتے ہیں لیکن ایک طرف مذاکرات چل رہے تھے تو دوسری طرف اسلام آباد آنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں اور اس دوران دھرنے کا اعلان کر دیا گیا، اس دوران مذاکرات ختم ہو گئے اور گرفتاریاں ہوئیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس صورتحال سے ہمیں بہت نقصان پہنچا، پولیس کی 40گاڑیاں جلا دی گئیں، نجی املاک کو کروڑوں کا نقصان پہنچا، 4پولیس اہلکار شہید ،800زخمی ہوئے۔
پہلے روز 100سڑکیں بلاک کی گئیں اس سے جو نقصان ہوا وہ الگ ہے۔ ہسپتالوں میں آکسیجن سلنڈر نہیں پہنچنے دئیے گئے جس سے لوگ جاں بحق ہوئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال میں باہر کے دشمن بھی کود پڑے۔ 4لاکھ ٹویٹس میں سے 70فیصدجعلی اکائونٹس سے کی گئیں۔ یورپی یونین ڈس انفارمیشن لیب نے پہلے ہی یہ انکشاف کیا تھا کہ 600جعلی ویب سائٹیس کے ذریعے بھارت پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہا ہے، اس صورتحال میں 380 وٹس ایپ جعلی نیوز چلا رہے تھے ۔
جے یو آئی اور مولانا فضل الرحمن بھی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لئے ساتھ مل گئے، (ن) لیگ بھی شامل ہو گئی۔ وزیراعظم نے سوال کیا کہ سلمان رشدی نے جب ناموس رسالت ﷺ میں گستاخی کی تو نواز شریف وزیراعظم تھے۔
انہوں نے اس صورتحال پر کیا کیا اور کن عالمی فورمز پر یہ معاملہ اٹھایا؟ آج انتشار پھیلانے کے لئے ساتھ مل گئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ فرانس کو مظاہروں یا سفیر کو واپس بھیجنے سے فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ میں مغرب کو سب سے بہتر سمجھتا ہوں، میں ان کی سوچ کو جانتا ہوں کیونکہ میں نے وہاں زندگی گزاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جون 19ء میں او آئی سی کی 14ویں کانفرنس میں میں نے اسلامو فوبیا اور نبی کریمۖ ﷺکی ناموس میں گستاخی کا معاملہ اٹھایا اور تجویز دی کہ اسلامی دنیا کو مل کر مغرب کو سمجھانا چاہیے پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی دو بار یہ معاملہ اٹھایا، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن میں بھی یہ بات کی، فیس بک کے سی او کو خط لکھ کر زور دیا کہ فیس بک کو ناموس رسالت ﷺکے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔
وزیراعظم اعظم نے کہا کہ انہوں نے سارے مسلمان ملکوں کے سربراہان کو خط لکھا کہ اس معاملے پر مل کر ایکشن لینا چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میری حکمت عملی یہ ہے کہ ہم مل کر اقوام متحدہ، یورپی یونین سمیت مختلف فورمز پر دنیا کو یہ سمجھائیں کہ آزادی اظہار رائے کے نام پر گستاخی سے مسلمانوں کو کس قدر تکلیف پہنچتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغرب میں اپنے نبی کی ایسی تکریم نہیں ہے جیسی ہم کرتے ہیں، نہ ہی وہ اپنے دین کے اتنے قریب ہیں، ہمیں دنیا کو یہ بات سمجھانے کے لئے مل کر کوشش کرنا ہو گی، تب ہی مغربی دنیا پر اثر ہو گا، اگر سارے مسلمان مل کر انہیں یہ بات سمجھائیں۔
وزیراعظم نے اس سلسلے میں یہودیوں کی مثال دی جنہوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجود دنیا کو یہ سمجھایا کہ ہولو کاسٹ کے خلاف بات نہ کی جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آج مغربی میڈیا ہولو کاسٹ کے خلاف بات نہیں کر سکتا۔ 4یورپی ملکوں میں ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے پر جیل میں ڈال دیتے ہیں۔
وزیراعظم نے سوال کیا کہ اگر یہودی اقلیت میں ہونے کے باوجود دنیا کو اپنی بات سمجھا سکتے ہیں تو کیا مسلمان مل کر دنیا کو ناموس رسالتۖ ﷺمیں گستاخی سے کیوں نہیں روک سکتے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اگر ہم مل کر یہ کام کریں تو مغرب کو سمجھانا ممکن ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 50مسلمان ملک مل کر یہ کہیں گے کہ اگر گستاخی کی گئی تو ہم ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے تبھی ہماری بات میں وزن ہو گا اور اثر کرے گی بصورت دیگر ہم ساری زندگی لگے رہیں ہم فرانس کو اس طرح نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ اس کی پوری ذمہ داری لیتے ہیں وہ اس مہم کی قیادت کریں گے اور ایک دن ہم یورپ کو یہ معاملے سمجھانے میں کامیاب ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہودی جو تعداد میں بہت ہی کم ہیں اگر انہوں نے دنیا کو اپنے موقف پر قائل کر لیا ہے تو ہم سوا ارب مسلمان بھی مل کر دنیا کو اپنی بات سمجھا سکتے ہیں۔
وزیراعظم نے علمائے کرام پر زور دیا کہ وہ ان کی تائید کریں اور اس معاملے پر حکومت کی مدد کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جو چیزیں ہو رہی ہیں ان سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے اس صورتحال سے دشمن کو فائدہ ہوا ہے، اپنا نقصان کرنے سے کسی مغربی ملک کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں اپنی قوم سے بھی کہتا ہوں کہ اکٹھے ہوں، بڑی مشکل سے ہم ایسے مقام پر آئے ہیں کہ معیشت اٹھ رہی ہے، ملک درست سمت میں ہے، روپیہ مستحکم ہو رہا ہے لیکن ملک کے دشمن ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
کورونا کی تیسری لہر کے باوجود ہم مشکل وقت اور صورتحال سے نکل آئے ہیں۔ ہمیں اپنی بہتر ہوتی ہوئی معیشت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔