چیئر مین قومی احتساب بیورو جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی دوںارہ تعیناتی سے قبل سندھ میں نیب کے تحقیقاتی افسران ا کا سب سے بڑ ا پنڈوا بکس کھل گیا ہے، تحقیقات کے نام پر مال بٹورنے، مقدموں میں رعایت دینے اور بڑے ملزمان کی ڈیل(سہولت کاری) میں شریک جرم ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے نتیجے میں نیب کراچی اور سکھر کے چھوٹے بڑے مقدمے اور ریفرنسز کاغذوں میں دم توڑ گئے ہیں اور کئی اہم مقدمات کی اصل دستاویزاتمبینہ طور پر غائب کردی گئی ہیں۔ باوصوق ذرائع کا کا کہنا ہے کہ نیب کراچی اور سکھر کی تمام تر توجہ پلی بارگین میں ہے اور اصل مقدمہ کے ساتھ ریفرنس میں بدعنوانی کے ساتھ تمام ٹھوس ثبوت اور کاغذات ضائع کرکے منی لانڈرنگ کرنے میں براہ راست ملوث بتایا جارہا ہے۔
نیب کراچی کے ضمیر عباسی 2015-2017ء کی تعیناتی کے دورانمبینہ طور پر تمام بڑے کیس میں فرنٹ مین، مڈل مین بن کرملزمان سے ڈیل کرتے رہے ہیں رشوت، کمیشن کک بیک کی مد میں کروڑں روپے وصول کئے۔
نیب کے دیگر افسران میں اسامہ لاکھانی ڈپٹی ڈائریکٹر نیب سندھ ہیڈ آفس، اومیش کمار ملانی ڈپٹی ڈائریکٹر ان کے والد تھر پارکر سے پپلزپارٹی اقلیت کا رکن سندھ اسمبلی ہیں جبکہ رضوان سومرو ڈائریکٹر نیب کراچی کے بھائی سابق صوبائی وزیر ایاز سومرو تھے۔ روفی شہزادہ اسٹنٹ ڈائریکٹر نے اپنے ساتھ اسلام آباد کی خاتون نیب افسر عفت شاہین ہے یہ فارنسک سیل کی انچارج سے ساز باز کررکھی ہے اور عفت شاہین کے تمام اخراجات بھی ان کے ذمہ ہیں دونوں افسران ملی بھگت سے کروڑوں کے فوائد حاصل کرچکے ہیں۔
روفی شہزادہ شکایات سیل میں تعینات روفی شہزادہ ملنے والی کمپلینٹس پر اپنے عہدے کا بھرہور فائدہ اٹھاکر مال و متاع سے مستفید ہورہے ہیں۔
ذرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ نیب میں تعینات ڈائریکٹر جاوید مصرانی بھی ان کے ہم رکاب ہیں۔
کہانی کی ڈوریں یہیں نہیں تھمتیں تحقیقاتی ادارے کے ایک اور افسر کامران عباسی اسٹنٹ ڈائریکٹر ہیں اور ان کی اہلیہ ایف آئی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں میں ہے نیب میں تعینات ہے اہلیہ کی رشتہ داری پولیس آفیسر کے اعلی افسر اور ہم ٹی وی کی مالکہ سلطانہ صدیقی سے ہے،
کامران بلوچ اسٹنٹ ڈائریکٹر نیب کراچی ہے اس کی اہلیہ رابعہ بلوچ اسٹنٹ ڈائریکٹر نیب ہے یہ جوڑی بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہے۔
ابل اعتماد زرائع نے مزید انکشاف کیا ہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر جواد احمد ڈپٹی اور ان کی اہلیہ حنا اسٹنٹ ڈائریکٹر نے بھی کراچی پورٹ ٹرسٹ کے کیسسز میں جی بھر کر ہاتھ دھوئے اطلاعات کے مطابق ان دنوں یہ میاں بیوی ملازمت چھوڑ کر جرمنی میں سکونت اختیار کر کے ہیں۔
نیب کی ایک اور افسر جوڑی اسلم پرویز ڈپٹی ڈائریکٹر اور ان کی اہلیہ پارس اسٹنٹ ڈائریکٹر نیب ہے نے پولیس اور سندھ پبلک سروس کمیشن کیسسز کو مبینہ طور پر بڑی رقوم کے عوض دوسرے فریق کے حق میں مضبوط بنادیا ذرائع کے اطلاع دی ہے کہ یہ جوڑی بھی جلد ملازمت سے مستعفی ہوکر جرمنی جانے کا ارادہ کرچکی ہے جہاں انہوں نے پہلے ہی اپنا کاروبار مستحکم کرلیا ہے۔
مسعود احمد ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب ان کی اہلیہ مہوش ایڈیشنل ڈائریکٹر ہیں شادی کے بعد انکی اہلیہ نے ملازمت سے استعفی دیا لیکن ایک سال بعد انہیں دوبارہ نوکری پر بحال کردیا گیا جبکہ ریکارڈ سے کاغزات بینہ طور پر غائب کردایے گئے۔
نیب کی ایک اور جوڑی سیما موریجو اسٹنٹ ڈائریکٹر ان کے خاوند اسٹنٹ ڈائریکٹر جاوید جونیجو جو سکھر میں تعینات ہیں اس جوڑی نے بھی مال و متاع کی دوڑ میں بھرپور حصہ لیا ہے۔
نیب کے افسران ندیم ساجد۔حفیظ صدیقی اور قمر عباسی بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔ نیب کے بیشتر افسران نے مبینہ طور پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے سندھ حکومت کے افسران کو ڈرا دھمکا کر سرکاری گاڑیان۔سرکاری رہائش۔پٹرول اور اپنے رشتے دارون کو نوکریان دلوائی ہین اور سندھ حکومت کے کیسز کی معلومات حکومتی وزراء کو پہنچانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
دلچسپ امر یہ کہ اکثریتی افسران سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں بھرتی ہوئے اور ان کی بھرتی میں سابق وزیر قانون ایاز سومرونے اہم کردار ادا کیا۔
مزکورہ افسران سابق ڈائریکٹر جنرل کراچی واجد دررانی اور دیگر افسران کی نگرانی میں بھرتی ہوئے تھے جن میں بعض بدعنوانی میں اہم کردار ادا کیا ان کو براہ راست بھرتی کیا گیا تھا نیب کراچی کے ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ کے بدنام زمانہ افسران جہنوں نے کرپشن کیسز ختم کرنے، کیس خراب کرنے کرپشن کے خلاف ثبوت ضائع کرنے میں اہم کردا ادا کیا اورٹیکنکل طریقے سے کروڑوں کی بندر بانٹ ہوئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مزکورہ افسران کے تانے بانے نیب سندھ کے سابق افسر ضمیر عباسی سے ملتے ہیں جو ان دنون سندھ حکومت میں تعینات ہیں۔
واضع رہے کہ ضمیر عباسی کو سپریم کورٹ نے سندھ سروسز میں ضم ہونے کا کالعد م کرنے کا حکمنامہ جارہی کرکھا ہے تاہم سندھ کی بااثر شخصیات کی ایما پر ان کی تقرری ختم کرنے کی بجائے سندھ لوکل گورٹمنٹ میں مبینہ طور پر لوٹ مار کی کھلی آزادی دیدی گئی ہے۔
صوبائی چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ، صوبائی سیکریٹری بلدیا ت نجم احمد شاہ سمیت کسی افسر نے ضمیر عباسی کے اقدامات اور کاروائی پر ایکشن نہیں لیا۔ صوبابے کے ایک اعلی افسر کا کہنا تھا کہ ضمیر عباسی نیب سے ڈاکٹر عاصم حسین کی ڈیل کے نتیجے میں ان کی ضمانت، رہائی کے ساتھ بیرون ملک روانگی کی سہولت کار تھے جس کے باعث اعلی افسران کاروائی سے اجتناب کررہے ہیں۔
احتساب کرنے والے بھی احتساب کا سامنا کرنے پڑسکتاہے۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت کے نوٹس میں سندھ نیب کے دو درجن سے زائد افسران کی کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن کی کہانیاں سامنے آچکی ہیں۔
چیئرمین نیب جاوید اقبال کی مدت ملازمت کو صرف ایک ہفتہ باقی ہے، نئے چیئرمین کی تقرری یا جاوید اقبال کی مدت میں توسیع کا اعلان متوقع ہے لیکن نیب کراچی اور سکھر کے افسران کا مالیاتی اسکینڈل ملک کی تاریخ میں ایک باعتماد ادارے پر بدنما داغ ٹابت ہوگا۔
Shame on this corrupted nab officers