-Advertisement-

ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی کی غیر قانونی تقرری، عمر میں ٹیمپرنگ کا انکشاف

تازہ ترین

اسلامک مائیکروفنانس سروسز کو فروغ دینے کیلئے میزان بینک اور پاکستان مائیکروفنانس نیٹ ورک کے درمیان معاہدہ

 پاکستان کے نامور اسلامی بینک میزان بینک نے پاکستان مائیکرو فنانس نیٹ ورک (PMN)کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط...
-Advertisement-

ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نئے تعینات ڈائریکٹر جنرل غلام محمد قائم خانی تعلیمی اسناد اور سرکاری دستاویزات ریکارڈ پر مدت ملازمت سے دو سال قبل 14اگست 2019ء کوریٹائرڈ ہوچکے ہیں نان کیڈر ہونے کے باوجود کیڈرڈائریکٹر جنرل ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے عہدے پر تعینات کرنے پرسندھ حکومت سپریم کورٹ کے حکمنامہ پر سوالیہ نشان کھڑا کردیاہے۔

ایم ڈی اے میں پہلے ہی سرکاری زمینوں پر غیر قانونی قبضے میں بڑے پیمانے پر افسران ملوث ہیں جن کی معطلی/ برطرفی کے ساتھ تحقیقات بھی منطقی انجام پر نہیں پہنچ سکی ہیں ایک طر ف امریکہ کینڈا سے یونس سٹیھ عرف یونس میمن ادارے کی نگرانی اور فیصلے کررہے ہیں،دوسری جانب سہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ملازم آغا زبیر نے جعلسازی کے ذریعہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھار ٹی میں اپنی ملازمت ضم کروالی ہے جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر کئی افسران دیگر محکموں سے آکر اب بھی ادارے میں کام کررہے ہیں اس بارے میں چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے سیکشن افیسر علی گل جلبانی کے دستخط سے جاری ہونے والے حکمنامہ No.SO(L&)/HTP/MDA/1-15/2021بتاریخ 24ستمبر2021ء کو جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مجاز اتھارٹی نے 13جولائی 2021کا حکمنامہ منسوخ اور واپس لے لیا گیا ہے اور آغا زیبر کو ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ایک بار پھر سے غیر قانونی طور پرضم کردیا گیا ہے۔

آغا زیبر ولد نادر علی، عدالتی حلف نامہ میں شناختی نمبر 43304-5370030-3بطور ڈپٹی سیکریٹری کی حیثیت کام کررہے ہیں جبکہ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر لینڈ شاہ لطیف ٹاون کے منافع بخش عہدے پر بھی براجمان ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ صوبائی محکمہ بلدیات سے سپریم کورٹ کی آڑ میں مبینہ طور پر رشوت لیکر کئی افسران کی خدمات غیر قانونی طور پراتھارٹی میں ضم کی کئی ہیں۔

تازہ ترین واقعات میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے مختلف سیکٹرز میں الاٹمنٹ شدہ زمینو ں پر تیزی سے قبضے کا عمل شروع ہوا تو تقریبا668ایکٹر اراضی پر قبضہ جمالیا گیا ہے۔

حاصل شدہ سرکاری دستایزات اور شواہد کے ساتھ ریکارڈ ملے ہیں ان میں دیہہ ناگن میں 330ایکٹرسرکاری اراضی خالی کراکے آدم جوکھو کے سپرد کی گئی اور کھربوں روپے مالیت کی اراضی کو ٹھکانے لگانے پر خاموشی سے کام جاری ہے،دوسری جانب گنور خان لغاری ڈپٹی کمشنر ملیر کو رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق جعلی ریکارڈ آف رائٹس پر اندارج کے مطابق گھٹ وڈانٹری نمبر48بتاریخ15اپریل 2021کے ذریعہ330ایکٹر اراضی ناکلاس 30دیہہ ناگن کی مجموعی اراضی780.11ایکٹراراضی پر مشتمل ہیں گھٹ وڈ فارم 11سروے سپریٹنڈنٹ کراچی کو 2اپریل2021ء دیہہ ناگن ناکلاس نمبر30نئے سروے نمبر190سے223تک 330ایکٹر اراضی کا داخلہ ریکارڈ کیا گیا ہے یہ زمین زوجہ سجاول جوکھیو کے نام الاٹ کردی گئی ہے جس کا شناختی کارڈ نمبر 42501-2365791-2، جنہوں نے نامعلوم دیہہ کی چند ایکٹر اراضی فارم سیون کے ناکلا س نمبر 10،11،12،13،14اور15کا اندراج درخواست 10فروری2017ء کے بدلے میں اراضی الاٹ کی گئی جو غیر قانونی عمل ہے۔

تحقیقاتی اداروں کی تفتیش کے دوران یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں تھی سرکاری و نجی اداروں کی زمین کی حیثیت تبدیل کئے بغیر رہائشی اور تجارتی بنیاد پر فروخت کردیی گئی جس کے بعد تحقیقاتی ادارے بند گلی میں پہنچ گئے، نیب کراچی اور دیگر اداروں کے مقدمات میں تعطل پید اہوگیا ہے۔

معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنر ز ایسٹ،غربی،اسسٹنٹ کمشنرز، مختیارکار،پٹواری، تپیدار،چوکیدار بورڈآف ریونیو افسران و اہلکار مبینہ طور پر چائنا کٹنگ میں براہ راست یا بلا و اسطہ ملوث رہے ہیں،

ذرائع کہتے ہیں کہ غلام محمد قائم خانی،چیف فنانسل آفیسر(گریڈ20) ڈائریکٹر جنرل HDAتھے وہ کئی سالوں سے حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کئی اہم عہدوں پر تعینا ت رہے انہیں واسا حیدرآباد کے مینجنگ ڈائریکٹر کا اضافی عہدہ دیا گیا جس پر انہیں نے بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے ںعدازاں انہیں ڈائریکٹر جنرل ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی تعینات کردیا گیا جبکہ عمران عطا سومرو جو کئی سالوں سے تعینات تھے انہیں تبدیل کیا ہے ان کا حکمنامہ NO.SO1(SGA&CD)-2/7/2009(LG-02)بتاریخ 27ستمبر 2021ء کو جاری کیا گیا ہے۔ واضع رہے کہ غلام محمد قائم خانی کے خلاف نیب ریفرنس، دیگر تحقیقات بھی سرد خانے کی نذر کردیئے گئے ہیں۔ موصوف ریلوے کاپرایٹو سوسائٹی،لینڈ اسکینڈل میی بھی سابقDGاقبال میمن،غلام محمد قائم خانی، عبدالستار لغاری، ڈپٹی ڈاریکٹر شاہدمیمن، مطلوب احمد چشتی، نوید احمدپر 1998سے 2010ء تک ایک ارب 48کروڑ روپے نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔

ان کے خلاف حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں مالی بے ضابطگیوں،ناجائز اختیارات کے ساتھ بحریہ ٹاون کے مالک ریاض ملک کو الطاف حسین یونیورسٹی کے نام پر زمین کی خریدأری، ریلوے سوسائٹی کی زمین کے الاٹمنٹ،گلشن سرمت کے منصوبے کی زمین نجی اداروں کو الاٹ کرنے، تعمیرات کے فنڈز خرد برد کرنے پر تحقیقات بھی سرد خانے کی نذر ہوچکی ہے۔

واضع رہے کہ آڈٹر جنرل آف پاکستان جاوید جہانگیرنے 2016-17 2009-2013ء کی رپورٹ میں قائم خانی کے خلاف بڑے مالیاتی اسکینڈل اور ناجائز اختیارات کی نشایدہی کی تھی اس پر بھیتحقیقات آگے نہ بڑھ سکی ہوسکی۔

دلچسپ امریہ ہے کہ غلام محمد قائم خانی 12 جنوری 1986 کو حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں اسسٹنٹ اکاؤنٹس آفیسر مقرر ہوئے تھے۔ اس وقت جمع کرائی گئی تعلیمی اسناد اور دیگر دستاویزات کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 14 اگست 1959 تھی۔ انہوں نے 27 سال 4 ماہ کی عمر میں ایچ ڈی اے میں شمولیت اختیار کی جبکہ اس وقت سرکاری ملازمت کے لئے انتہائی عمر 25 سال تھی، یعنی تقرری میں بھی قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ موصوف نے مینہ طور پر جعلی طریقے سے سرکاری کاغذات میں تین سال عمر کم کرکے سرکاری مراعات حاصل کیں لیکن ان کے خلاف چیف سیکریٹری سندھ سمیت دیگر حکام نے تادہی کاروائی کی بجائے چشم پوشی اختیار کئے رکھی۔ جبکہ سندھ سول سروینٹس ترمیمی ایکٹ 1973 کے سکیشن 26 کے مطابق جس کو نوٹیفیکیشن سروسز، جنرل ایڈمنسٹریشن اینڈ کوآرڈینیشن ڈیپارٹمنٹ (ریگولیشن ونگ) کی جانب سے جاری کیا گیا۔

SORI (S & GAD) 2-13/2005 مورخہ: 6 اپریل 2012 سرونٹس(الف) سندھ سول سروس رولز مینوئل والیم، 1950، رول 171 میں، پیراگراف ”انسٹرکشن” کو حذف کر دیا جائے گا،(ب) سندھ کے سرکاری ملازمین (تقرری، پروموشن اور ٹرانسفر رولز 1974، رول 12 کے بعد، مندرجہ ذیل نیا رول داخل کیا جائے گا،”(بارہ اے) سرکاری ملازمت میں شمولیت کے وقت سرکاری ملازم کے ذریعہ تاریخ پیدائش ایک بار درج کی جائے گی اور اس کے بعد کوئی تبدیلی جائز نہیں ہوگی۔ جبکہ مزکورہ افسر کی تاریخ پیدائش کے ثبوت کے طور پر ادارہ ترقیات حیدرآباد کی جانب سے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کو ج
بھیجی گئی گروپ انشورنس کی لسٹ جو مورخہ 28 اپریل 2014ء کو جاری ہوئی اس میں تاریخ پیدائش 14 اگست 1959 ہی درج ہے۔

سروس پروفائل کے مطابق غلام محمد قائم خانی ایچ ڈی اے کے چیف فنانشل آفیسر تھے، وہ 19 مارچ 2010 سے ڈائریکٹر جنرل ایچ ڈی اے کا اضافی چارج کیوں سنبھالے ہوئے ہیں؟ کیونکہ اس دوران انہوں نے اپنا سروس ریکارڈ مبینہ طور پر تبدیل کیا۔ مزید یہ کہ موصوف کا پاسپورٹ جو کہ حکومت نے 21 اکتوبر 2006 سے 20 اکتوبر 2011 تک جاری کیا تھا، ان کی اصل تاریخ پیدائش کو ثابت کرتا ہے۔ جبکہ 2010 سے 2015 تک جاری کردہ نظر ثانی شدہ پاسپورٹ، تاریخ پیدائش 14 اگست 1962 کر دی گئی ہے۔

اصل تایخ پیدائش کے مطابق غلام محمد قائم خانی کی مدت ملازمت 14 اگست 2019 کو پوری ہوچکی ہے اور 15 اگست 2019 سے ان کی تمام سرگرمیاں غیر قانونی زمرے میں آتی ہیں۔

اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ خادم حسین ولد بلاول خان کے رہائشی ضلع سانگھڑ نے خان محمد کاکا ایڈووکیٹ کے ذریعہ 22ستمبر 2021ء کو چیف سیکریٹری سندھ، نیب چیئرمین، چیئر مین انٹی کرپشن کو غلام محمد قائم خانی کیخلاف فوری کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اہم خبریں

-Advertisement-

جواب تحریر کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مزید خبریں

- Advertisement -