پاکستان تحریک انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں پارٹی فنڈز میں بے ضابطگیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی۔
اکبر ایس بابر نے الزام عائد کیا کہ 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالرز پی ٹی آئی کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے اور تحریک انصاف نے یہ بینک اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے خفیہ رکھے۔
اس کے بعد تحریک انصاف نےپارٹی فنڈز کی چھان بین سے متعلق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کر دیا۔
تقریبا ایک سال بعد الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2015 کو تحریک انصاف کے اعتراض مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی فنڈز کی چھان بین کرنے کا اختیار ہے۔ ایک ماہ بعد پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔
17 فروری 2017 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست مسترد کردی اور الیکشن کمیشن کو سماعت جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ اسی سال سپریم کورٹ نے ن لیگ کے حنیف عباسی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو کیس کا فیصلہ جلد کرنے کا حکم بھی دیا۔
الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کے بینک اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بھی قائم کی جسے تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تاہم عدالت نے پی ٹی آئی کی یہ درخواست بھی مسترد کر دی۔
جولائی 2018 میں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی جانب سے تفصیلات فراہم نہ کرنے پر ا سٹیٹ بینک سے 2009 سے لے کر 2013 تک پارٹی کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب کر لیں۔
اسٹیٹ بنک نے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف کے 23 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کیں۔ اس سے پہلے تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کو 8 بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات خود بھی فراہم کر دی تھیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی اس کیس میں فریق بنیں تو پی ٹی آئی کے فرخ حبیب نے بھی 2017 ء میں ہی ان دونوں جماعتوں پر فارن فنڈنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کر دی تھی۔
حکمران جماعت تحریک انصاف نے اسکروٹنی کمیٹی کے 13 جنوری 2021 کو ہونے والے اجلاس میں جواب جمع کروایا تھا کہ پی ٹی آئی ایل ایل سی ایک ایجنٹ ہے، اگر ایجنٹ پی ٹی آئی کی جانب سے دی گئی ہدایت کے برعکس رقم کی تفصیلات پارٹی کو فراہم نہیں کرتا تو پی ٹی آئی مواد کی تصدیق کرنے کی ذمہ دار نہیں۔
پی ڈی ایم کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ غیر ملکی فنڈنگ تسلیم کر لی ہے، اب الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے خلاف کیس کا فیصلہ جلد کرے، اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد اسی حوالے سے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج بھی کرنے جارہا ہے۔