بجلی کے قومی ترسیلی ادارے این ٹی ڈی سی کے موجودہ چیرمین نوید اسماعیل کی تعیناتی پر روزاول سے سوالات اٹھ رہے ہیں لیکن اب کارپوریٹ قوانین پر اتھارٹی رکھنے والے ماہرین نے نیا پینڈورا بکس کھول دیا ہے۔
کارپوریٹ لاء ماہرین کے مطابق کسی بھی قومی ادارے کے سربراہ یا اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل افراد بیک وقت ایسے ادارے کے ساتھ الحاق نہیں رکھ سکتے جو کانفلکٹ آف انٹرسٹ کے ذمرے میں آتا ہو۔
نوید اسماعیل کی بطور چیرمین این ٹی ڈی سی تعیناتی کے ساتھ ان کی کے الیکٹرک بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شمولیت کے عمل کو کارپوریٹ لاز پر اتھارٹی رکھنے والے ماہرین صریحا” خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔ کیوں کہ کے الیکٹرک اور این ٹی ڈی سی کے درمیان اربوں کا کاروبار بھی ہوتا ہے اور بحیثیت بورڈ اف ڈائریکٹر دونوں میں سے کسی ایک طرف جھکاو لازمی ہوگا۔
واضع رہے کہ ماضی میں ایسے کئی واقعات کی مثالیں موجود ہیں جن میں سول قومی اداروں کے سربراہوں کو کانفلکٹ آف انٹرسٹ کی خلاف ورزی پر سبکدوش یونا پڑا۔
ماضی قریب میں کے الیکٹرک کے سابق چیرمین تابش گوہر جنہیں وزیر اعظم کے بطور مشیر توانائی کے عہدے سے علیحدہ ہونا پڑا جس کی بنیادی وجہ کانفلکٹ آف انٹرسٹ ہی ثابت ہوئی۔
واضع رہے کہ این ٹی ڈی سی کے موجودہ چیرمین نوید اسماعیل کی تعیناتی پر پاور ڈویڑن کے تمام افسران میں بے چینی پائی جارہی ہے کیونکہ انہیں کارپوریٹ گورننس کے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خفیہ ہاتھوں کی سرپرستی میں مقرر کیا گیا ہے۔
جون 2021 میں انہیں حکومت پاکستان نے کے الیکٹرک کے بورڈ میں اپنے نمائندے کے طور پر نامزد کیا۔ کارپوریٹ گورننس کے ضابطہ کے مطابق، کسی بھی کمپنی میں حکومت کے نامزد کردہ بورڈ ممبر کے طور پرنوید اسماعیل اپنے فرائض کی انجام دہی کر سکتے ہیں کہ وہ متعلقہ کمپنی کے بورڈ میں پاکستان کے مفادات کی نمائندگی کریں اس کے ساتھ جتنے چاہیں بورڈز پر حکومت کی جانب سے نامزد کردہ بورڈ ممبر بن سکتے ہیں، اس صورت میں آپ کو حکومت سے آزاد نہیں سمجھا جا سکتا جو کہ ریاست کی ملکیت/پبلک سیکٹر کی تنظیم کے لیے ایک آزاد ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کی ایک اہم ضرورت ہے۔
اس حوالے سے بڑے انکشافات اگلی خبر میں جاری کئے جائیں گے۔ جس میں توانائی منصوبے پر 111 ارب روپے کی سرمایہ کاری کیلئے کیا ہونے جارہا ہے؟؟
نوید اسماعیل کی کمپنی بھارتی متل گروپ کے ساتھ کیسے منسلک ہے اور بہت کچھ۔۔