شیر شاہ کے علاقے میں نالے پر قائم حبیب بینک کی برانچ میں دھماکے کے حوالے سے پولیس اور بم ڈسپوزل اسکواڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعہ گیس لیکیج سے ہوا جبکہ واقعے میں دہشتگردی سمیت کسی قسم کی تخریب کاری کے شواہد تاحال نہیں ملے۔
دوسری جانب جائے وقوعہ پر موجود سوئی سدرن گیس کی ٹیموں نے تصدیق کی ہے کہ واقعہ کی جگہ پر ادارے کی کوئی گیس پائپ لائن نہیں ہے۔ مزید برآں علاقے میں موجود تمام گیس پائپ لائنز بالکل محفوظ ہیں اور انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
ابتدائی تحقیقات کی روشنی میں کہ جارہا ہے کہ دھماکہ سیوریج لائن میں گیس بھر جانے سے ہوا جو شیر شاہ کے علاقے میں واقع حبیب بینک کے عین نیچے ہوا۔
یہ امر بھی قابل غور اور توجہ طلب ہے کہ وقوعہ پر قدرتی گیس کی کوئی بو نہیں تھی اور یہاں تک کہ آگ بھی نہیں لگی، جو اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ دھماکے کو سوئی سدرن گیس کمپنی کی پائپ لائن سے جوڑا نہیں جا سکتا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ حکومتی ایوانوں میں اثر و رسوخ رکھنے والی حبیب بینک انتظامیہ نے کونسی وجوہات کی بناء پر ایک نالے (تجاوزات) پر بینک کی برانچ قائم کررکھی تھی۔
موقف جاننے کیلئے حبیب بینک کارپوریٹ سرکل سے ںارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جواب ندارد۔
واضع رہے کہ ہفتہ کے روز شیر شاہ کے علاقے میں نالے پر قائم حبیب بینک کی برانچ میں دھماکہ کے نتیجے میں 14 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والے افراد میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان کے والد دلاور خان بھی شامل تھے۔
مقامی پولیس اور رینجرز نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ہے۔
بینکنگ سرکل سے منسلک ماہرین نے تشویش ظاہر کی ہے کہ ہفتہ کے روز شیر شاہ جیسے غیر محفوظ علاقے میں نالے پر قائم حبیب بینک برانچ میں کھاتیداروں کو اضافی سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے قریبی محفوظ علاقے کی برانچ منتخب کی جاتی۔
کارپوریٹ قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سی ایس آر کی ترویج پر کروڑوں روپے مختص کرنے کے دعویدار کارپوریٹ ادارے خصوصا” بینکاری کا شعبہ بینک خدمات کی مد میں کھاتیداروں سے اربوں روپے وصول کرنے کے باوجود قوانین کی صریحا” نفی کررہا ہے، جس کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
ادھر سیکرٹری داخلہ نے کہا ہے کہ نالے پر قائم حبیب بینک سمیت تمام دکانیں غیر قانونی ہیں انہیں مسمار کیا جائے گا۔