پولیس کی جانب سے تابڑ توڑ لاٹھی چارج اور بھاری شیلنگ کے نتیجے میں نسلہ ٹاور کے قریب سینکڑوں پر امن مظاہرین زخمی ہوگئے۔
مزاکرات کے دوران چیرمین آباد محسن شیخانی اور وائس چیرمین محمد حنیف میمن بھی بھاری شیلنگ کی زد میں آگئے۔
قبل ازیں میڈیا سے گفتگو کے دوران چیرمین آباد، وائس چیرمین اور دیگر عہدیداروں نے کہا کہ کراچی کو اون کرنے کے دعویدار کہاں ہیں؟ انہوں نے سوال کیا کہ بلڈرز کاغزات مکمل ہونے اور تمام این او سیز کی منظوری کے بعد تعمیراتی عمل شروع کرتے ہیں لیکن بیک جنبش قلم مکمل منصوبوں کو گرانے کے احکامات دئیے جانے سے قبل ان پوشیدہ عوامل کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔
چیرمین آباد کا کہنا تھا کہ عروس البلاد شہر کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں نے اپنے ہاتھ روک لئیے ہیں۔
محسن شیخانی نے کہا کہ کراچی کو یتیم کردیا گیا ہے۔ آباد کے عہدیداروں نے کہا کہ کاروںار کیلئے بھاری بھرکم رشوتیں طلب کی جاتی ہیں اور کام میں ہر قدم پر رخنے ڈالے جاتے ہیں۔ اب صورتحال اسقدر سنگین ہوگئی ہے کہ کراچی میں کسی قسم کا کاروبار نہیں کرنے دیا جارہا۔
آباد کے سابق چیرمین حسن بخشی نے پولیس گردی اور پر امن مظاہرین پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی پرزور مزمت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تعمیراتی صنعت کو بچانے کیلئے فوری مداخلت کی جائے بصورت دیگر ملک بھر میں تعمیراتی صنعت کا پہیہ جام ہوجائے گا۔
آباد کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں کراچی کے ٹیکسوں پر مشے کرتی ہیں لیکن جب شہر کو آڑھے وقت میں لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر میں ناجائز قابضین کے گروہ اور اس سسٹم کو چلانے والے قانون اور عدلیہ کی پکڑ سے باہر ہیں۔
حیران کن امر یہ ہے کہ اس احتجاج کے دوران سندھ حکومت کی نمائندگی کرنے والے کسی بھی وزیر نے شرکت نہیں کی جبکہ صوبائی اسمبلی میں بعض وزراء نے اپنے عہدے چھوڑنے کا بھی دعوہ کیا تھا