پاکستان پرنٹنگ گرافک آرٹ ایسوسی ایشن اور
آل پاکستان پیپر مرچنٹس ایسوسی ایشن کی دیگر ایسویس ایشن کے ساتھ
مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صنعت سے جڑے اسٹیک ہولڈرز نے چند مقامی ملوں کی اجارہ داری سے کاغذ کی قیمتوں میں دو سو فیصد اضافے کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے درآمدی کاغذ کی اجازت اور ان پر ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں کمی کا مطالبہ کردیا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران صنعت سے منسلک رہنماوں نے درسی کتب کی بندش کا بھی خدشہ ظاہر کردیا ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پرنٹنگ گرافک آرٹ ایسوسی ایشن کے چیرمین عزیز خالد نے کہا کہ کاغذ پر سب کی سوچ ایک ہی ہے۔ اگر کاغذ نہیں بہت تو تو کتابین کیسے چھاپے جائیں گے۔ پورے ملک میں کاغذ کا شدید بحران ہے، کاغذ کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ اتنا مہنگا کاغذ ہے کہ کتاب کی قیمت کا تعین ہی نہیں کرپارہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر کاغذ نہیں بہت تو کتابین کیسے چھاپے جائیں گے۔ عزیز خالد نے کہا کہ پرنٹڈ پیپرز کی بروقت سپلائی نہ ہونے سے اسکول کا نیا سلیبس بھی پرنٹ نہیں ہوسکا ہے اسکول سلیبس کی تاخیر سے سندھ اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے طلبہ کو بڑا نقصان پہنچ رہا ہے۔ حکومت کی منفی پالیسی کی وجہ سے صرف مقامی پیپر انڈسٹری کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس پالیسی سے ملک بھر میں 18 ہزار سے زائد پرنٹنگ اور پیکجنگ یونٹس اور سپلائی چین شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
پریسن کانفرنس کے دوران پاکستان پیپرمرچنٹس ایسوسی ایشن کے سابق چیرمین محمد سلیم بیکیا نے کہا کہ ہمارے ہاں گائے بھینسوں کے چارے کیلئے استعمال ہونے والے بگاس سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر معیاری پیپرز کی قیمت میں خود ساختہ دو سو فیصد کا نمایاں اضافہ کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا لوکل مل 95 فیصد حصہ رکھتی ہیں کیا وہ ٹیکس پورا دیتی ہیں؟؟ ہمیں ایسی انڈسٹری نہیں چاہئیے جو ٹیکس چوری کرتی ہوں۔ تعلیم چاردیواری میں نہیں دی جاتی۔ محمد سلیم بیکیا نے کہاکہ ملک میں 180 ٹن دکھا کر صرف دس ٹن کاپی تیار اگر حکومت ہمیں کاغز درآمد کی اجازت دے تو ریوینیو ڈبل کردیں گے۔
سابق حکومت نے کاغذ کی صنعت پر ظلم کیا۔ تعلیم کے کاغذ پر تین تین ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں۔ ہمارے حافظ قرآن بچوں کو خراب کاغذ کی وجہ سے ایک سال بعد چشمہ لگ جاتا ہے۔
محمد سلیم بیکیا نے کہا کہ ہمارے ہاں گائے بھینسوں کے چارے کیلئے استعمال ہونے والے بگاس سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔