اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیولپمنٹ فنانس گروپ (ڈی ایف جی) ثمر حسنین نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ میرا پاکستان میرا گھر (MPMG) اسکیم کو مستقل طور پر بند نہیں کیا گیا ہے اور حکومت نے بدلی ہوئی میکرو اکنامک صورتحال کی روشنی میں اسکیم کی خصوصیات پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ ایس بی پی پوڈ کاسٹ سیریز کی 7ویں قسط میں اینکر پرسن کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ ثمر حسنین نے بتایا کہ وزیر خزانہ نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس میں اسٹیٹ بینک اور فنانس ڈویژن کے حکام شامل ہیں۔ کمیٹی کا بنیادی کام اسکیم کی خصوصیات کا جائزہ لینا اور یہ دیکھنا ہے کہ کیا ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ توقع ہے کہ حکومت سے منظوری کے بعد اسکیم کی نئی خصوصیات کو 31 اگست 2022 تک حتمی شکل دے کر جاری کر دیا جائے گا۔
پاکستان کے مقابلے میں دیگر ممالک میں رہن قرضوں (مارگیج فنانسنگ) کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملکوں میں یہ 10 فیصد ہے جبکہ ملائیشیا، انڈونیشیا جیسے دیگر ترقی پذیر ممالک میں 20 فیصد اور ترقی یافتہ ممالک میں 100 فیصد سے زیادہ ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ تاہم پاکستان میں جی ڈی پی کے تناسب سے رہن قرضے 0.5 فیصد سے بھی کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعمیراتی شعبہ 40 متعلقہ صنعتوں کے ساتھ منسلک ہے لہٰذا، تعمیراتی شعبے اور اقتصادی ترقی کا گہرا تعلق ہے۔ ثمر حسنین نے خیال ظاہر کیا کہ میرا پاکستان میرا گھر اسکیم ملک میں ایک اور اہم کام بھی پورا کرتا ہے یعنی مالی شمولیت۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک ملک میں رہن مالکاری کے تناسب کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہا ہے اور دو بنیادی رکاوٹوں کو، جن کا اس شعبے کو پہلے سامنا تھا، اب دور کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل پاکستان میں فورکلوزر (قرقی یا رہن کی ضبطی کے) قوانین کا نہ ہونا بڑی رکاوٹ تھی لیکن چونکہ یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اس لیے ملک میں رہن قرضوں کی رفتار مزید بڑھے گی۔ دوسری اہم وجہ ہاؤسنگ سیکٹر کی کامیابی کے لیے درکار سیالیت (لیکویڈٹی) کی دستیابی ہے۔ بینکوں کے پاس دس سے بیس سال تک کے طویل مدتی ڈپازٹس نہیں تھے۔ ان کے علاوہ کچھ غیر ساختی مسائل بھی تھے اور ان سے بھی نمٹا گیا ہے۔
اسکیم کی معطلی کا سبب بننے والے عوامل کی وضاحت کرتے ہوئے ثمر حسنین نے شروع ہی میں اس تاثر کی نفی کی کہ یہ فیصلہ بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کچھ معاشی مبادیات میں تبدیلی کی وجہ سے اسکیم کو عارضی طور پر روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں تفصیلات بتاتے ہوئےکہا کہ جب میرا پاکستان میرا گھر اسکیم کو شروع کیا گیا تھا تو کراچی انٹر بینک آفرڈ ریٹ (کائبور) 8 فیصد اور بینکوں کا مارجن 4 فیصد تھا کیونکہ بینکوں کو کائبور جمع 4فیصد پر فنڈز موصول ہوئے، بینکوں کو شروع میں 12 فیصد پر ملے تھے۔ حتمی صارف کو 5 فیصد پر قرضہ ملا اور حکومت کی طرف سے ادا کیا جانے والا زرِ تلافی (سبسڈی) 7 فیصد تھا۔ گذشتہ چند مہینوں کے دوران بنیادی معاملات میں تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں، پالیسی ریٹ بدلنے لگا ، شرح مبادلہ بگڑ گئی اور کائبور بڑھ کر 16 فیصد ہو گیا جس کی وجہ سے حکومت اسکیم پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت حکومت کے لیے زرِ تلافی 15 فیصد ہو گیا ہے جو ابتدا میں 7 فیصد تھا۔ اسی اثنا میں حکومت آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع کر رہی تھی، اس نے مالی استحکام کے اقدامات کیے اور حکومت کے لیے اس بھاری زرِ تلافی کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے 30 جون 2022ء کو اسکیم کو عارضی طور پر معطل کردیا تاکہ اس کی خصوصیات پر نظر ثانی کی جاسکے، اسے مزید تیر بہدف بنایا جاسکے اور یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس کا فائدہ نچلی سطح کے گھرانوں سے لے کر کم اور متوسط آمدنی والے گھرانوں تک پہنچیں، یعنی وہ گھرانے جو رعایتی قرضوں کے بغیر ہاؤسنگ یونٹ خرید سکتے ہیں نہ تعمیر کر سکتے ہیں۔
اب تک رقوم کی تقسیم کے بارے میں ثمر حسنین نے بتایا کہ پاکستان میں رہن مالکاری 21 جنوری2021ء تک بالکل بھی نہیں تھی (ماسوائے مہنگی اور کافی عرصے سے قائم ہاوسنگ سوسائیٹیوں کو دی گئی مارگیج کے) جبکہ متذکرہ اسکیم کے ڈیڑھ سال مکمل ہونے تک یعنی 30 جون 2022ء تک 100 ارب روپے تقسیم کیے جاچکے ہیں، جبکہ 500 ارب روپے مالیت کی درخواستیں موصول ہوچکی ہیں اور ان کے 236 ارب روپے کے قرضوں کی منظوری دی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینکوں کو اب احساس ہوچکا ہے کہ یہ ایک کامیاب کاروباری ماڈل ہے اور وہ اسے قابلِ عمل کاروباری ماڈل سمجھ رہے ہیں۔
انہوں نےکہا کہ اسکیم کے تحت بینکوں نے ایسے افراد کو بھی قرضے دیے جن کا کوئی رسمی ذریعہ آمدن نہیں تھا، ایسے افراد کے پاس کوئی “پے سلپ” بھی نہیں تھی اور اسی وجہ سے اسٹیٹ بینک نے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا، غیررسمی آمدنی والے افراد کے لیے ہم نے ایک اسکور کارڈ بنایا جس کے تحت کسی فرد کو محض بجلی کے بل، موبائل ٹاپ اپس اور دیگر بل اسکور کارڈ میں درج کرنے ہوتے ہیں اور پھر بینک اس معلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے مقررہ ماڈل کا استعمال کرکے ایسے افراد کے اسکور کا تعین کرتے ہیں۔ اس اسکور کی بنیاد پر بینک ان افراد کی قرض واپسی کی صلاحیت کا اندازہ لگاتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ ان افراد کو قرضے کی کتنی رقم دی جائے۔
جو افراد بیعانہ (ٹوکن رقم) دے چکے ہیں، ان کے مستقبل کے حوالے سے غلط فہمی کو دور کرنے کی غرض سے انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک پہلے ہی یہ اعلان کرچکا ہے کہ اسکیم کے تحت 30 جون سے نئے قرضوں کی تقسیم روکی گئی ہے اور جن درخواست گذار وں کے قرضوں کی کچھ رقوم کی فراہمی ابھی باقی ہے، انہیں بقیہ رقم ادا کی جائے گی؛ ایسے افراد کو 31 اگست تک انتظار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اسٹیٹ بینک اور حکومتِ پاکستان دونوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے افراد کو معمول کے مطابق رقوم کی فراہمی مکمل کی جانی چاہیے۔ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کو بھی سرکلر جاری کردیا ہے۔