-Advertisement-

رفاعی زمین پر قائم اربوں روپے کا تعمیراتی منصوبہ “المدنی ہائٹس” بھی غیر قانونی نکلا

تازہ ترین

اسلامک مائیکروفنانس سروسز کو فروغ دینے کیلئے میزان بینک اور پاکستان مائیکروفنانس نیٹ ورک کے درمیان معاہدہ

 پاکستان کے نامور اسلامی بینک میزان بینک نے پاکستان مائیکرو فنانس نیٹ ورک (PMN)کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط...
-Advertisement-

سپریم کورٹ کے واضع اور سخت احکامات کے باوجود شہر کراچی کے متعدد علاقوں میں سرکاری اور رفاعی زمینوں اعلی اعلان حکومتی اور افسر شاہی کی مبینہ سرپرستی میں قبضوں اور تعمیرات کا سلسلہ تھمنے کی بجائے زور پکڑ گیا ہے۔

لاقانونیت، زمینوں پر قبضوں، بڑھتی ہوئی ڈکیتیوں اور دن دھاڑے چھینا جھپٹی کی وارداتوں کے نتیجے میں شہری عدم تحفظ کے شکار ہوچکے ہیں۔ عمر بھر کی جمع پونجی کسی تعمیراتی منصوبے پر لگانے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ کس کے الفاظ میں صداقت تلاش کریں۔

نسلہ ٹاور، تجوری ہائیٹس سمیت کئی عمارتوں کو غیر قانونی قرار دیکر مسمار کئے جانے کے احکامات کے باوجود قبضہ اور غیر قانونی تعمیرات میں مذید ایک نام کا اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں الاٹیز کے اربوں روپے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔

پرانی سبزی منڈی کے قریب جمشید ٹاؤن کے علاقے میں بلمقابل عسکری پارک 20 منزلہ چھے ٹاورز پر مشتمل ” المدنی ہائیٹس” کا تعمیراتی عمل جاری ہے جس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ ایس بی سی اے، صوبائی حکومت اور افسر شاہی کی آشیرباد سے مکمل کیا جارہا ہے۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی نہ الاٹمنٹ درست ہے، نہ زمین کمرشل، نہ خرید وفروخت کا اجازت نامہ،نہ لے آوٹ پلان کی اجازت نامہ و نقشہ جات کی منظوری۔

ذرائع نے 480 فلیٹس کی بکنگ مکمل ہونے کا دعوی کیا گیا ہے، جبکہ ایک فلیٹ کی مالیت ڈیڑھ کروڑ تا تین کروڑ روپے مالیت بتائی جارہی ہے

ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ اس غیر قانونی منصوبے کے پس منظر میں ایک شخص حنیف میمن عرف حنیف پپو بتایا جاتاہے جو لیاری اور اولڈ سٹی ایریا کی تنگ اور تاریک گلیوں میں کئی کئی فلور اور پورشن بنانے اور غیر قانونی تعمیرات کا ماہرہے۔

واضع رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے “المدنی ہائیٹس” کی 7.44 ایکٹر زمین کے تنازعے پر تعمیرات روکتے ہوئے حکم امتناعی جاری کررکھا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اس زمین کی الاٹمنٹ کا تنازعہ طویل عرصہ سے برقرارہے جس کے سبب فلاحی، رفاعی مقاصد کے لئے مختص اراضی پر تعمیرات نہیں کی جاسکتی اور نہ زمین تجارتی مقاصد کیلئے استعمال میں لائی جاسکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے 21جنوری 2019ء کو ایک حکم نامہ میں زمین کی حیثیت تبدیل کرنے پر پابندی عائد کی تھی اور پانچ سالوں (2014-2019) کے دوران رہائشی اور فلاحی کے ساتھ رفاحی اراضی کی حیثیت تبدیل ہونے والے ایسے 901 پلاٹس پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے ان کی تعمیرات روک دی گئی تھی اس کے باوجودشہر میں تجارتی بنیادوں پر تعمیرات تیزی سے جاری ہیں۔

ادھر کے ایم سی ذرائع کا کہنا تھا یہ زمین دیہہ گجر NJ-18 یا K-28/C پاک پی ڈبلیو کے اسٹور ون اور اسٹور ٹو کے نام آلاٹ کی گی تھی اس زمین پر نشتربستی کے نام پر کچی آبادی اباد کی گئی تھی اور یہاں آباد مبینہ سرکاری سربرستی میں ق
مقیم خاندانوں کو منگھوپیر اور دیگر علاقوں میں متبادل پلاٹس دیئے گئے تھے۔

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اس زمین کو کمر شل کئے بغیر غیر قانونی فروخت کا اجازت نامہ سابق ڈائریکٹر لینڈ شیخ کمال کے دستخط سے جاری ہوا تھا۔

حنیف پپو ( جس کے بارے میں ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیویلپرز پاکستان آباد نے تصدیق کی ہے کہ موصوف ایسوسی ایشن کے رکن نہیں ہیں) نے زمین کمرشل نہ ہونے کے باوجود نہ اس کا ماسٹر پلان سے لے آوٹ پلان منظور کروایا، نہ اس کے نقشہ جات کی منظوری سندھ بلڈنگ کنٹرول ل اتھارٹی سے حاصل کی اور نہ ہی منصوبے کی خریدوفروخت کی اجازت لینا گوارا سمجھا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ حنیف پپو بیرون ملک مقیم رہ کر اپنے منصوبوں کو آپریٹ کررہا ہے جبکہ اس کے تمام سرکاری اجازت ناموں سے مبرا منصوبوں ہر کام کرنے والے ملازمین کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

حیران کن امر ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھا رٹی کے ڈائریکٹر ڈیزائن اور پلاننگ فرحان قیصر نے منصوبہ کے بارے میں نقشے کی منظوری کی تصدیق لیکن دیگر اجازت ناموں کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے جبکہ سابق ڈائریکٹر لینڈ شیخ کمال کا کہنا تھا کہ اس پلاٹس کی فروخت کا اجازت نامہ دیاگیا تھا اور مقررہ وقت میں چالان کی رقم ادائیگی نہ کرنے پر تمام این او سی منسوخ کردی گئی تھی جس کے بعد انہیں علم نہیں۔

ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ سابق میئر کراچی میئر کے ایم سی وسیم اختر کا شدید دباؤ تھا اور سابق میئر وسیم اختر اور اس کی ٹیم نے مبینہ طور پر بھاری نذرانہ لیکر مذکورہ پلاٹ کی فروخت کرنے کے لئے این او سی جاری کی تھی

کے ایم سی اور پاک پی ڈبلیو کے ریکارڈ اور دیگر دستاویزات کے مطابق 20 سالوں سے زمین کا تنازعہ برقرار ہے۔ کے ایم سی کی الاٹمنٹ اور زمین کی حیثیت تبدیل کیے بغیر کمرشل رہائشی منصوبہ کی اجازت سوالیہ نشان ہے۔ اس بارے میں قومی احتساب بیورو، انٹی کرپشن اور تمام تحقیقاتی اداروں نے اپنی آنکھیں، کان اور زبان بند کررکھی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق مزکورہ
متنازعہ زمین کا کنٹرول فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فانڈیشن اسلام آباد، پاک پی ڈبلیو کی اسٹور ون اور اسٹور ٹو کی کچی آبادی نشتر بستی نزد پرانی سبزی منڈی مین یونیورسٹی روڈ کراچی جو 11.496 ایکٹر پر مشتمل ہے جس کے متاٹرہ خاندانوں کو کے ایم سی 6 جون 1991 میں نے 18لاکھ ادا کئے تھے۔ جبکہ 0.084ایکٹر پاک پی ڈبلیو نے کے ایم سی کو 81ہزار312اروپے ادا کئے تھے۔ ایک معاہدے کے تحت پاک ڈبلیو نے 7.44ایکٹر اراضی کا کنٹرول کے ایم سی کو منتقل کیا رفاحی اور عوامی مقاصد اور فلاعی کاموں کے مختص اراضی کا نرخ 200روپے فی اسکوئر یارڈ مقرر کی گئی تھ۔

پاک پی ڈبلیو اور کے ایم سی کے مابین معاہدہ کے تحت زمین کی مجموعی رقم 97لاکھ90ہزار 377روپے دس اقساط میں ادائیگی کرنا تھی تاہم جون1992ء سے 4 مئی 1996ء تک ادائیگی نہ ہونے کے ایم سی نادہدہ بن گئی اس کے بعد وزرات ہاوسنگ اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے 28 اگست 1998ء سے 8 اگست2001 تک مذید مہلت دی گئی باوجو د کے ایم سی نے زمین کی رقم ادائیگی نہ کی اور نا ہی زمین کا قبضہ لینے کے باوجود رفاحی مقاصد کیلئے تعمیرات کی گئیں۔ اس دوران پراسرار انداز میں سابق میئر کراچی ڈاکٹر فاروق ستار کے ہاتھوں مزکورہ زمین اسماعیلہ گارڈن کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کو الا ٹ کردی گئی۔ جس کا خط نمبر No.DDL/Sent/Misc/II/92بتاریخ 24مارچ 1992ء تھا۔

بعدازاں اس زمین کا قبضہ بھی ایک حکمنامہ کے تحت No.DL/Cent/Misc/92 اسی تاریخ کو جاری کردیا گیا جبکہ کے ایم سی کی جانب سے 15مارچ 1993ء کو اسماعیلہ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کو لیز سب رجسٹرار ٹی ڈویژن کراچی کے رجسٹرار RD-no 564سریل نمبر 851کے تحت ٹاون ہاوسنگ، فلیٹ مختص کرتے ہوئے اختیارات منتقل کردیا گیا۔

کے ایم سی کی روایت پر ہوبہو عمل کرتے ہوئے سوسائٹی نے بھی 1996 سے 2002ء تک گراونڈ رینٹ کی ادائیگی نہ کی۔

واضع رہے کہ پاک پی ڈبلیو کی جانب سے 24 مارچ 1992ء کو اور ایک کونسل کی قرارداد کے تحت اسماعیلہ گارڈن کارپوریشن ہاوسنگ سوسائٹی کے نام الاٹمنٹ اور 5.0 ایکٹر(اسکوئر یارڈ24,200) زمین کا قبضہ دیا گیا تھا اس معاہدے کے تحت مزکورہ زمین اسماعیلہ کیمونٹی کے ٹاون ہاوسز،فلیٹس کی تعمیرات کے لئے مختص کی گئی تجی اور یہاں پر موجود کچی آبادی کو خالی کرانے کی ذمہ داری کچی آبادی کو دی گئی تھی۔

بعدازاں کالعدم سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے حکمنامہ No.SDDO/rev/Land/842/2002 بتاریخ 19اگست 2002ء میں سوسائٹی کا تمام سابقہ حکمنامہ منسوخ کردیا گیا جس پر سوسائٹی نے عدالت سے رجوع کیا جس ہر کے ایم سی کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے عدالت نے الاٹمنٹ بحال کردی۔

۔16 سال سے متنازعہ اراضی جس پر اب المدنی ہائیٹس تعمیر کی جارہی ہے کے خلاف لیگل برانچ پاک پی ڈبلیو نے خط نمبر 728/250(misc)/Legal/4989بتاریخ 22نومبر2007ء جاری کیا تھا جس کے بعد ادارے نے سابق جج جسٹس شفیع محمدی کی عدالت میں 7جولائی 2009ء کو سول سوٹ دائر کیا تھا جو زیر سماعت ہے۔

قانونی اور تعمیراتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسماعیلہ کوآپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کی زمین متنازعہ اور زیر سماعت ہونے کے سبب اس جگہ قائم ہونے والی کسی بھی تجارتی و رہائشی عمارت پر سرمایہ کاری کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی تاوقت یہ کہ کیس کا فیصلہ نہ ہوجائے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نسلہ، تجوری اور دیگر تعمیراتی منصوبوں پر سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں عوام اپنی سرمایہ کاری سے قبل ان منصوبوں کی ہر پہلو سے چھان بین کریں۔

اہم خبریں

-Advertisement-

جواب تحریر کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

مزید خبریں

- Advertisement -